سندھ

غیر قانونی مقیم اور افغان کرمنلز کے جانے کے بعد وارداتوں میں کمی آئی

کراچی: ستمبر کے بعد سے شہر میں ایک بھی ہاؤس رابری نہیں ہوئی ،گزشتہ سال ستمبر سے آج تک ایک بھی پولیس اہلکارشہید نہیں ہوا

ایڈیشنل آئی جی کراچی نے شہر میں اسٹریٹ کرائم کا ذمہ دار پڑوسی ملک افغانستان کو قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی 2 بڑی وجوہات منشیات اوراسلحے کی دستیابی ہے منشیات اور اسلحے کا تحفہ ہمیں پڑوسی افغانستان نے دیا ہےدنیا میں کوئی ایسا ملک یا شہر نہیں جہاں اسلحہ کرائے پردستیاب ہو۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند نے شہر میں اسٹریٹ کرائم کا ذمہ دار پڑوسی ملک افغانستان کو قرار دے دیا اور کہا کہ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی 2 بڑی وجوہات منشیات اور اسلحے کی دستیابی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ منشیات اور اسلحے کا تحفہ ہمیں پڑوسی افغانستان نے دیا ہےدنیا میں کوئی ایسا ملک یا شہر نہیں جہاں اسلحہ کرائے پر میسر ہو،مفتی ضیاء الرحمان کیس میں ایک ایسا ملزم ہاتھ آیا جو اسلحہ کرائے پر دیا کرتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ وجوہات کی روشنی میں افغان کرمنلز کے خلاف آپریشن کیا گیا پولیس 10 ستمبر سے ہی افغان کرمنلز کے خلاف آپریشن کا آغاز کرچکی تھی افغان کرمنلز کے خلاف حکومت نے بعد میں پالیسی بنائی، حکومت نے 15 اکتوبر کو آپریشن روک کر افغان کرمنلز کو یکم نومبر تک مہلت فراہم کی۔

کراچی پولیس چیف نے بتایا کہ گزشتہ سال مجموعی طور پر 2400 افغان کرمنلز کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 1274 کرمنلز 10 ستمبر سے 15 اکتوبر تک صرف 5 ہفتوں میں گرفتار کئے گئے،منشیات کے عادی افراد نے بھی شہرکو بہت نقصان پہنچایاجن وارادتوں میں لوٹ مار کے ساتھ قتل کی وارداتوں میں زیادہ تر افغان کرمنلزملوث تھے۔

خادم حسین رند نے بتایا کہ یکم نومبر سے شروع ہونے والے گرینڈ آپریشن کے دوران 40 ہزار افغانی ملک سے گئے، 35ہزار چمن بارڈر سے افغانستان گئے اور 5 سے 6 ہزار طورخم سے واپس گئے،40 ہزار غیر قانونی مقیم اور افغان کرمنلز کے جانے کے بعد وارداتوں میں کمی آئی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ستمبر کے بعد سے شہر میں ایک بھی ہاؤس رابری نہیں ہوئی ، وہ ہاؤس رابریز جن میں ڈاکو لوٹ مار کرتے اور ساتھ ہی بچیوں اور خواتین سے جنسی تشدد کا نشانہ بناتے تھے ، ایک ایسا گینگ تھا جوگھروں میں لوٹ مار کرتے تھے اور خواتین کو جنسی تشدد کا بھی نشانہ بناتے تھے اور ان وارداتوں میں گھر کا کوئی مرد مزاحمت کرتا تھا تو ملزمان اسے گولی مار دیتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ سال جنوری سے ستمبر تک 23 پولیس اہلکار شہید ہوئےپچھلے سال کوئی ہفتہ خالی نہیں گزرتا تھا کہ جب ہم شہید کی نماز جنازہ ادا نہیں کرتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال ستمبر سے آج تک ایک بھی پولیس اہلکارشہید نہیں ہوا جو واقعات ہورہے ہوتے ہیں وہ سب کو دیکھائی دے رہےہوتے ہیں جو واقعات نہیں ہورہے ان پر بھی توغور کریں،گھروں میں ڈکیتی ایک سنگین جرم ہے اور ڈکیتی کی واردات کے دوران خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے اور قل کا واقعہ اس سے بڑا سنگین جرم ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close