دنیا

بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت میں ریلی کی کوشش، 20طلبہ گرفتار

ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی ذیلی طلبہ تنظیم کے 20 کارکنان کو اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت میں ریلی نکالنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام پر پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں حالیہ برسوں جماعت اسلامی کے متعدد رہنماؤں کو سزائے موت بھی دی جا چکی ہے۔

1971 میں پاکستان کا ساتھ دینے والے رہنماؤں کو سزا دینے کے لیے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے2010 میں متنازع جنگی ٹربیونل تشکیل دیا تھا، جس نے جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو پھانسی اور سزائیں سنائیں۔

علاوہ ازیں بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت نے 2013 میں جماعت اسلامی کے منشور کو ملک کے سیکولر آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی تھی۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی ذیلی طلبہ تنظیم کے کارکنان کی گرفتاری ایسے دن کی گئی جس دن ملک بھر میں آزادی کی تقریبات منعقد کی جا رہی تھیں۔

ڈھاکا ٹربیون نے اپنی خبر میں بتایا کہ چٹاگانگ پولیس نے ‘اسلامی چھترا شبر‘ نامی طلبہ تنظیم کے 20 کارکنان کو ایسے وقت میں گرفتار کیا، جب وہ ریلی نکالنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم ’شبر‘ کے طلبہ بنگلہ دیش مخالف حمایت میں ریلی نکالنے کے لیے جمع ہوئے۔

چٹاگانگ کی کوٹوال پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او محمد جاسم الدین کے مطابق طلبہ نے شہید مینار پر توڑ پھوڑ اور ہنگامہ کرنے کا پروگرام بھی بنا رکھا تھا۔

پولیس نے صبح ساڑھے 8 بجے کے قریب چھاپے کے دوران طلبہ کو گرفتار کیا۔

تاہم دوسری جانب طلبہ تنظیم کے چٹاگانگ کے یونٹ کے رہنما نورالامین نے پولیس کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کارکنان آزادی کی تقریبات کے حوالے سے جمع ہوئے تھے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کے قاتل کیلئے دعا کرانے والا مولانا گرفتار

ڈھاکا ٹربیون نے اپنی ایک اور خبر میں بتایا کہ پولیس نے بنگلہ دیش کے سابق رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کے قاتل کیلئے دعا کرانے مدرسے کے ایک استاد کو گرفتار کرلیا۔

خبر کے مطابق مدرسے کے استاد نے ڈھاکا ڈویژن کے ضلع تنگیل کے علاقے گوپالپور اپزلا میں ہونے والی ایک دعائیہ تقریب میں شیخ مجیب الرحمٰن کے قاتل کے روح کو ایثال ثواب پہنچانے کے لیے دعا کرائی۔

دعا کرانے والے مولوی کی شناخت ڈاکٹر فیضل عامر سرکار کے نام سے ہوئی، جو مقامی مدرسے کے مہتمم تھے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close