دنیا

برطانیہ کے نکلنے سے روس کو کیا حاصل

یورپی یونین سے نکلنے یا اس کا حصہ رہنے کے لیے ہونے والے ریفرنڈم پر ہونے والی بحث کا روس بھی حصہ بن گیا ہے۔

’ریمین‘ کے لیے مہم چلانے والوں کا دعویٰ ہے کہ روس یورپی یونین کو کمزور بنانے کے لیے برطانیہ کے نکلنے کا حامی تھا۔

وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے الفاظ کے مطابق صدر ولادی میر پوتن ’شاید خوش ہوں گے اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے۔‘

تو کیا وہ ہیں؟ کیا روسی رہنما برطانیہ کےنکلنے سے خوش ہیں؟

کم از کم کھلے عام تو نہیں۔

جمعے کے روز ولادی میر پوتن نے صحافیوں کو بتایا کہ ریفرنڈم کے نتیجے سے ’مثبت‘ اور ’منفی‘ چیزیں ہوئی ہیں۔

انھوں نے منفی چیزوں کے بارے میں تو بات کی جن میں معیشت پر غیر مستحکم اثرات شامل ہیں۔

لیکن ’مثبت‘ چیزیں کون سی ہیں؟ برطانیہ کے نکلنے سے روس کو کیا حاصل ہوا؟

برطانیہ اور یورپی یونین معاشی غیر یقینی صورتحال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سے ہوگا کیا؟ کیا برطانیہ ٹکڑوں میں بٹ جائے گا؟ کیا دیگر یورپی یونین کے رکن ممالک کو نکلنے کی جانب دھکیلا جائے گا

آنے والے ہفتوں میں توقع رکھی جائے کہ روسی سرکاری میڈیا ریفرینڈم کے بعد کے انقلابی اور ملک سے باہر کے غیر یقینی حالات کا موازنہ اپنے ملک میں ’استحکام‘ اور ’مضبوط‘ صدر ولادی میر پوتن کی تصاویر کے ذریعے کر سکتا ہے۔

رواں سال روس میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل ایسی کوریج سے حکمراں جماعت، یونائیٹڈ رشیا اور خود صدر کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے بہتر ہے۔

یورپی یونین روس پر یوکرین میں مداخلت کی وجہ سے پابندیاں عائد کر چکا ہے۔

ایک سرکاری ٹی وی پریزینٹر نے جمعے کو تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ یہ کوئی مذاق نہیں، پاؤنڈ نیا روبیل (روسی کرنسی) ہے۔‘

ماسکو کے میئر سرگے سوبیانن کے خیال میں برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے سے روس کی جیت ہوئی ہے۔

انھوں نے ٹویٹ کی کہ ’یورپی یونین میں برطانیہ کے بغیر کوئی بھی نہیں جو ہمارے خلاف پابندیوں کے لیے پر جوش انداز میں کھڑا ہو۔‘

سیاسی تجزیہ کار ایلکس مکین نے ماسکو کے مقامی اخبار میں لکھا کہ ’تمام یورپی ریاستوں میں سب سے زیادہ برطانیہ روس کی جانب جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے تھا۔ اس نے ہمیشہ ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا اور معاشی، مالیاتی اور سیاسی طور پر ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ برطانیہ کے نکلنے سے یورپی یونین کا روس کی جانب رویہ دوستانہ ہو جائے گا۔

شاید یہ پرامید سوچ ہے۔ برطانیہ ہی صرف یورپی ریاست نہیں جو روس کے ساتھ سخت رویہ رکھے ہوئے ہے بلکہ پولینڈ، سویڈن اور دیگر ریاستیں بھی اس میں شامل ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد پوتن کے ترجمان نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ ’نئی حقیقت اور ہمارے ملک کے ساتھ اچھے تعلق کو بنانے کی ضرورت کو سمجھا جائے گا۔ (دوسرے الفاظ میں، امید ہے کہ ’نیا وزیراعظم ہمیں زیادہ پسند کرے گا‘)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close