دنیا

ترکی میں فوجی بغاوت کی سیاہ تاریخ

ترکی میں گزشتہ شب کی ناکام فوجی بغاوت نے 56 سالہ سیاسی تاریخ میں چار بار کی گئی فوجی بغاوتوں کی یاد تازہ کردی، ان فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا گیا اور کئی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان خونی فوجی بغاوتوں نے کئی معصوم شہریوں کی جان سے گئے تا ہم اس بار عوام الناس نے ترک صدر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فوگی بغاوت کو ناکام بنا دیا ہے۔

تک میں پہلی فوجی بغاوت 27 مئی 1960 میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیمل گرسِل کی جانب سے کی گئی اس کامیاب فوجی بغاوت کے نتیجے میں اُس وقت کی حکومت کو معطل کردیا گیا تھا اور صدر،وزیر اعظم سمیت دیگر وزراء کو غداری اور دیگر جرائم کے الزامات میں پابند سلاسل کردیا گیا تھا اور بعد ازاں وزیراعظم عدنان مینڈرز کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

دوسری مرتبہ12 مارچ 1971میں ترکی میں کئی مہینے سے جاری معاشی بد حالی ،بد امنی اور ہنگاموں کے بعد آرمی جنرل ممدوح ٹیگمک نے فوجی بغاوت کے بعد ملک کی مجموعی ذبوں حالی کے خاتمے اور معاشی و بد امنی کی بحالی کے نام پر کارِحکومت خود سنبھال لی۔

محض 9 سال بعد 12ستمبر 1980 میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان تناؤ اور تصادم نے تیسری بار پھر فوجی بغاوت کو دعوت گناہ دینے کا باعث بنا جس کے نتیجے میں جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی اور آرمی چیف ایڈ مرل بولینٹ نے بغاوت کے بعد وزیراعظم کو اُن کو عہدے سے ہٹا کر خود وزیر اعظم کی نشست پر براجمان ہو گئے اس فوجی بغاوت میں بھی کئی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو پابند سلاسل کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

چوتھی بار 28 فروری 1997 میں مسلح افواج نے ماضی کے برعکس جمہوری اداروں پر ٹینکوں اور فوجی دستوں کے ساتھ چڑھائی تو نہیں کی تا ہم جمہوری حکومت کو کارِ حکومت چلانے کے لیے سخت سفارشات دی گئی تھیں حکومت وقت کے پاس ان سفارشات کو قبول کرنے اور نافذ کرنے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا تا ہم اس کے باوجود وزیر اعظم ترک سے جبری استعفیٰ لے لیا گیا تھا،یہ غیر اعلانیہ اورغیر سرکاری فوجی بغاوت بھی کامیاب بغاوت ثابت ہوئی پوری حکومتی مشینیری بہ شمول عدالت،تجارت، نشریات اور سیاسی قیادت فوج کے زیر تسلط تھے۔

اردگان کی جماعت چودہ برس سے اقتدار میں ہے،ان کی حکومت کو تین بار بڑی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ہے 2008اور 2010میں ترک حکومت نے دو بڑی اندرونی فوجی بغاوت کو نا کام بنایا تھا،ترک عدالتوں نے تین جرنیلوں اور تین سو سے زائد فوجی کو سزاسنائیں۔

اسی طرح 2013 میں اردگان حکومت کو نئی قسم کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تھا،جب ایک پارک سے درخت اکھاڑنے کے منصوبے کی خلا ف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور ان مظاہروں کی آڑ میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی گئی لیکن اردگان نے اس چیلنج کو اپنی تدبرانہ قیادت اور دوراندیش پالیسیوں سے قابو پالیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close