دنیا

استنبول میں دھماکے، 30 پولیس اہلکاروں سمیت 38 افراد ہلاک

حکام کا کہنا ہے کہ ان دھماکوں میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا جن میں سے پہلا کار بم اور دوسرا خودکش حملہ تھا۔

یہ دھماکے دو مقامی فٹبال ٹیموں کے درمیان ہونے والے ایک میچ کے دو گھنٹے بعد ہوئے۔ اس سلسلے میں اب تک دس افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حملے کے پیچھے کرد جنگجوؤں کا ہاتھ ہو سکتا ہے، جنھوں نے ماضی میں بھی پولیس کو نشانہ بنایا ہے۔

نائب وزیرِ اعظم نعمان کرتلمش نے سی این این ترک کو بتایا کہ اس حملوں کا کھرا کردستان ورکرز پارٹی کی جانب جاتا ہے۔

حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 30 پولیس اہلکار شامل ہیں۔

ترکی میں قومی سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔

اب تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم بی بی سی کے ترکی کے نامہ نگار مارک لوون کہتے ہیں کہ اس برس ترکی میں کئی حملوں میں کرد جنگجوؤں اور شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا ہاتھ رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اس واقعے میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا ہے کہ اس لیے اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ اس کے پیچھے کرد شدت پسندوں کا ہاتھ ہو۔

ترک صدر طیب رجب اردوغان نے ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے تاہم انھوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ انھوں نے اسے ایک دہشت گرد حملہ قرار دیا۔

اس سے قبل وزیرِ داخلہ نے پارلیمان میں ایک بیان میں بتایا تھا کہ حملے میں 20 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔

وزیرِ داخلہ سلمان صولو نے بتایا کہ ابتدائی شواہد کے مطابق ایک کار بم کے ذریعے پولیس کی بس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بیشکتاش سپورٹس سٹیڈیم میں ایک فٹبال میچ ختم ہونے کے آدھے گھنٹے کے بعد یہ دھماکہ ہوا۔

بیشکتاش سپورٹس سٹیڈیم استنبول کے تقسیم سکوئر کے قریب واقع ہے۔

ترکی کے نامہ نگار مارک لوون کا کہنا ہے کہ اب تک ان حملوں کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم پولیس کو نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے خیال کیا جا رہا ہے کہ ان حملوں کے ذمہ دار کرد باغی ہیں۔

ٹراسپورٹ کے وزیر احمت ارسلان نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ دہشتگرد حملہ تھا۔

ترکی میں گزشتہ کچھ عرصے میں شدت پسندوں کی جانب سے حملوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close