دنیا

شام حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنیکا الزم محض ایک بہانہ تھا، جرمن تجزیہ کار

جرمنی کے معروف تجزیہ نگار اور جرمنی میں عرب جرمن ایسوسی ایشن کے صدر مائیکل لوڈرز (Michael Lüders) جو جرمنی کی وزارت خارجہ کے مشیر بھی ہیں، نے کہا ہے کہ امریکہ نے شام کے خلاف جارحیت کا جواز فراہم کرنے کیلئے شام حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ وہ جرمن چینل ڈوئچے ویلے سے بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے شام پر امریکی جارحیت کے بعد اس ملک میں پراکسی وار کی شدت میں ممکنہ اضافے پر پریشانی کا اظہار بھی کیا۔ مائیکل لوڈرز نے شام کے فوجی ہوائی اڈے پر امریکی حملے کو غیر متوقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امریکی حکومت اس حد تک نامعقول اقدام انجام دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی واضح امر ہے کہ اس امریکی اقدام کے باعث شام میں بدامنی اور تناو کی شدت میں اضافے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ جرمن تجزیہ کار نے مزید کہا: "شام میں ایک نئی پراکسی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔ اس کا ایک فریق امریکہ، یورپی یونین، ترکی اور خلیج عرب ریاستیں ہوں گی، جو شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون کرنے کے درپے ہیں، جبکہ دوسرا فریق روس، ایران اور چین ہوں گے، جو کسی قیمت پر صدر بشار اسد کو اقتدار سے علیحدہ ہونے نہیں دینا چاہتے۔ شام میں امریکہ کی فوجی مداخلت سے خطے میں جاری بحران کی شدت میں اضافے اور روس اور امریکہ کے درمیان فوجی ٹکراو کا خطرہ بہت حد تک بڑھ گیا ہے۔”

مائیکل لوڈرز نے ایک سوال کے جواب میں شام کے مسئلے پر اختلافات کی شدت اور وسعت میں اضافہ ہونے کی وارننگ دیتے ہوئے کہا: "چونکہ حالیہ امریکی حملے میں اب تک موصول ہونے والی خبروں کے مطابق کسی روسی شہری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لہذا روس کی جانب سے کسی ردعمل کا خطرہ موجود نہیں۔ لیکن اگر امریکہ نے کوئی اور مشابہہ فوجی کارروائی انجام دی، جس میں کسی روسی شہری یا روسی جنگی آلات کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے نتیجے میں صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ امریکی حکام اس وقت روس کو اپنا سب سے بڑا جیو پولیٹیکل دشمن تصور کرتے ہیں اور وہ خفیہ طور پر دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ ایک یوکرائن کا محاذ ہے اور دوسرا شام کا محاذ۔ شام حکومت اور مسلح افواج نے حال ہی میں مشرقی حلب سمیت ملک کے بڑے شہروں کو دہشت گرد عناصر سے آزاد کروا لیا ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ امریکی شام کے محاذ پر روس کے مقابلے میں شکست کھا چکے ہیں۔ اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ واشنگٹن کی اسٹبلشمنٹ شام کے محاذ پر اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس لوٹانا چاہتی ہے۔”

جرمن تجزیہ کار نے کہا کہ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ امریکہ 16 اپریل کو ترکی کے آئین میں ترمیمات کیلئے منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے بعد شام پر زمینی فوجی حملے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکی اسپشل فورسز کے 400 فوجی شام میں تعینات کئے جا چکے ہیں۔ مائیکل لوڈرز نے کہا کہ شام کے مستقبل کے حالات کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں اور صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ مائیکل لوڈرز نے اس سوال کے جواب میں کہ کتنے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شام حکومت کا کام ہے، کہا: اس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں کہ ادلب میں انجام پانے والا کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ کس کا کام تھا اور یہ کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔ اس بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن ہے، لیکن معتبر رائے نہیں پائی جاتی۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ادلب کے واقعے کو شام پر امریکی حملے کا بہانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ امریکہ شام میں روس اور ایران کا اثرورسوخ برداشت نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ حکومت بھی سابقہ امریکی حکام کی طرح نہیں چاہتی کہ ایران خطے میں ایک طاقت کے طور پر سامنے آئے۔ اگر ٹرمپ کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ اومابا دور میں ایران سے انجام پانے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دیتے۔ میرے خیال میں مسلسل ٹکراو کی پالیسی کا نتیجہ صرف بدامنی اور شام کی نابودی میں اضافے کا باعث بنے گا۔ امریکی پالیسیاں خاص طور پر اس کی خارجہ پالیسی انتہائی بدنظمی کا شکار ہے۔”

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close