دنیا

ناسا کا سورج کے قریب ترین پہنچنے والا خلائی مشن

پیساڈینا، کیلیفورنیا:  ناسا نے انسانی تاریخ میں سورج کے قریب ترین پہنچنے والے خلائی مشن کو روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ناسا نے اس مشن کو پہلے سولر پروب پلس کا نام دیا تھا لیکن پھر 31 مئی کے نئے اعلامیے کے مطابق اب اس مشن کو ممتاز سائنسدان یوگین پارکر کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا سورج کے قریب ترین پہنچنے والا پہلا مشن ہو گا جب کہ تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ ناسا نے کسی زندہ فرد کے نام پر اپنے خلائی منصوبے کا نام رکھا ہے۔ یوگین پارکر کو اگلے سال موسمِ سرما میں زمین سے باہر روانہ کیا جائے گا۔

یوگین پارکر مشن کو خصوصی طور پر سورج کی  غیرمعمولی گرمی اور شعاعیں (ریڈی ایشن) برداشت کرنے کے قابل بنایا گیا ہے اور وہ سورج سے صرف 40 لاکھ میل دور ایک مدار تک پہنچے گا جہاں سے وہ سورج کی فضا کا جائزہ لے سکے گا۔ اس کے علاوہ یہ سورج کے مقناطیسی میدان اور وہاں سے خارج ہونے والے ذرات پر بھی غور کرے گا جنہیں آج ہم شمسی ہوائیں کہتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مشن یوگین پارکر کی مدد سے سورج کے کئی رازوں سے پردہ اُٹھانے میں مدد مل سکے گی۔  ناسا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ خلائی جہاز سورج کے بیرونی ماحول اور فضا کا مشاہدہ کرکے ہمارے بہت پرانے سوالات کے جوابات دے گا جیسے ایک ستارہ کس طرح کام کرتا ہے، اور اس مشن سے شمسی سرگرمیوں کی پیش گوئی اور معلومات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اسی طرح زمین پر ہم انسانوں اور خود سیٹلائٹس پر سورج کے اثرات کا جائزہ لینا ممکن ہوسکے گا۔

سورج کی غیر معمولی حدت برداشت کرنے کے لیے اس پر کئی انچ موٹی خاص کاربن کی ایک چادر چڑھائی گئی ہے تاکہ اس کے نازک برقی آلات جل کر تباہ ہونے سے محفوظ رہیں، ساڑھے 4 انچ کاربن کی پرت اس خلائی جہاز کو 1377 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت برداشت کرنے کے قابل بنائے گی۔ اس کے علاوہ خلائی جہاز پر ایک پارٹیکل ڈٹیکٹر بھی نصب کیا جارہا ہے جو سورج سے خارج ہونے والے مختلف ذرات کا جائزہ لے سکے گا۔

واضح رہے کہ یوگین پارکر نے 1958 میں ایک اہم تحقیق پیش کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ سورج سے مسلسل ذرات خارج ہوتے رہتے ہیں اور سورج کا مقناطیسی میدان تبدیل ہوتا رہتا ہے جس کا اثر پورے نظامِ شمسی پر پڑتا ہے۔ ناسا نے اس سے قبل ہیلیوس ٹو نامی سیارچہ 1976 میں سورج کے قریب بھیجا تھا جو سورج کے 4 کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر دور تک پہنچا تھا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close