بلاگ

داعش کی شکست اور اسرائیل کی بوکھلاہٹ

تحریر: صابر کربلائی

حالیہ دنوں میں شام اور عراق کی سرحد پر اسرائیلی و امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ داعش کی شکست کے بعد داعش مخالف افواج نے شام و عراق سے داعش کے خاتمے اور شکست کا رسمی اعلان کیا ہے جبکہ اس بات کے خطرات تاحال موجود ہیں کہ شکست خوردہ یہ دہشت گرد اور ان کے آقا امریکا اور اسرائیل اس شکست کے بعد اس خطے میں نت نئے انداز سے دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔

یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کی مدد کرنے والے ایک کے بعد ایک کرکے شکست سے دوچار ہو رہے ہیں حالانکہ اسی داعش کو دیکھ لیجیے کہ جس نے تقریباً چھ برس تک پورے خطے کو آگ و خون میں غرق کیے رکھا اور اسرائیل کےلیے امن و امان فراہم کیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ داعش اور النصرۃ نامی دہشت گرد گروہ اسلام کا نام لے کر، پیغمبر اسلام (ﷺ) کے نام کا جھنڈا لے کر نکلے اور ایسی بد ترین سفاکیت کی سیاہ تاریخ رقم کی کہ زبان بیان کرنے سے عاجز ہے۔

ان دہشت گرد گروہوں نے نہ صرف مسلم دنیا کو تہس نہس کیا بلکہ اپنے آقا اسرائیل کو امان دیئے رکھی اور اس کےلیے مواقع اور وقت فراہم کیا کہ اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کو آسانی سے پھیلاتا رہے۔ بہرحال، خدا کا کرم یہ ہے کہ ان امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کو شکست کھانی پڑی اور ذلت و رسوائی ان کے مقدر کا حصہ بنی۔

دوسری طرف اسرائیل ان دہشت گرد پٹھو گروہوں داعش اور النصرۃ کی شکست پر شدید پریشانی میں مبتلا ہے کیونکہ ان دہشت گردوں کو جس مقصد کےلیے بنایا اور پال پوس کر یعنی اسلحہ اور دولت دے کر پروان چڑھایا گیا تھا، وہ سب کا سب اب خاک ہوچکا ہے۔ بہرحال اب اسرائیل کی بوکھلاہٹ اس لئے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے کیونکہ پہلے ماضی میں 2006 میں اسرائیل براہ راست جنگ میں بھی لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا تھا جس کے بعد نئے مرحلے میں ان دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھانے کی ناپاک منصوبہ بندی شروع کی گئی تھی۔ اسرائیل کی بوکھلاہٹ اس لئے بھی بڑھتی جارہی ہے کیونکہ لبنان ہی کی اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے خلاف سیاست کے میدان میں جو محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی وہ بھی ناکام بلکہ یوں کہیے کہ بری طرح ناکام ہوئی ہے۔

جی ہاں! لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کہ جنہوں نے لبنان کے مفاد کے بجائے اسرائیلی و امریکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے لبنان کو ایسے وقت میں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی کہ جب لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نہ صرف اسرائیل کے خلاف سرحدوں پر مصروف جہاد ہے بلکہ اس نے اسرائیلی پیدا کردہ فتنۂ داعش کی سرکوبی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، سعد حریری نے کچھ دن قبل سعودی عرب پہنچ کر وزارت عظمی کے عہدے سے استعفیٰ دیا تاکہ ملک میں سیاسی بحران آئے اور اس کا پورا پورا فائدہ گھات لگائے ہوئے صہیونی دشمن کو پہنچے۔ لیکن اسرائیل اور اس کے ہمنوا عرب ملک کی یہ سازش بری طرح ناکام ہوئی۔

لبنانی عوام متحد رہے اور صدر اور اسپیکر نے ملک کو متحد رکھنے اور عوام کو یکجا رکھ کر اسرائیل اور اس کے ہمنوا عرب ممالک کے خواب چکنا چور کر دیئے۔ نتیجے میں شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سعد حریری چند دن سعودی عرب میں گزارنے کے بعد مصر اور فرانس کا چکر لگاتے ہوئے واپس لبنان آدھمکے اور استعفیٰ واپس لے لیا۔

دراصل صہیونی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی میدان جنگ میں ذلت و رسوائی کے بعد اسرائیل کی طرف سے لبنان کی اسلامی مزاحمت کے خلاف ایک نئی چال تھی جو بالآخر ناکامی کا شکار ہوئی ہے۔ اب کچھ دن گزر جانے کے بعد پھر اسرائیل شدید بوکھلاہٹ میں لبنان سے کسی نئی ممکنہ جنگ کا عندیہ دے رہا ہے جس کا ہدف ہمیشہ کی طرح حزب اللہ کو قرار دیا جارہا ہے اور صہیونی ذرائع ابلاغ پر اس بحث کی بہت تکرار کی جارہی ہے کہ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو غیر مسلح اور ختم کیا جائے گا اور اس کےلیے اسرائیل جنگ کے آپشن پر غور کررہا ہے۔ در اصل اسرائیل کا ایک مرتبہ پھر جنگ میں براہ راست داخل ہونے کی باتیں کرنا یہ ثابت کر رہا ہے کہ خطے میں اسرائیلی نصب شدہ منصوبے او ر آلہ کار دہشت گرد گروہ اور سیاست دان بالخصوص امریکا سب کے سب فلسطین کی جدوجہد آزادی میں سرگرم عمل اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو گھنٹنے ٹکوانے میں ناکام ہوئے ہیں۔

دوسری طرف خود اسرائیل میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی جانب سے لبنان یا حزب اللہ کے خلاف کسی بھی قسم کی شروع کردہ جنگ کے نتائج اسرائیل کےلیے بھیانک ہوں گے کیونکہ امریکا اور اسرائیل پہلے ہی پورے مشرق وسطیٰ میں اپنی پالیسیوں میں ناکام ہوچکے ہیں۔ تاہم ایسے حالات میں کوئی بھی نئی جنگ اسرائیل کےلیے شدید نقصان دہ ہوگی۔ یہ تجزیات اور تبصرے ایسے وقت میں سامنے آنا شروع ہوئے ہیں کہ جب غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ ایسے وقت میں اسرائیل میں موجود متعدد ماہرین نفسیات جنگ کا کہنا ہے کہ یہ صہیونی غاصب ریاست اسرائیل کی تاریخ رہی ہے کہ جب جب حزب اللہ کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا ہے اس کے بعد آنے والی ہر قیادت اسرائیل کے شدید خطرے کی علامت ثابت ہوئی ہے۔ تاہم اسرائیل کا ایسے حالات میں کسی نئی جنگ کو شروع کرنے کے بارے میں سوچنا احمقانہ اور خود کشی کرنے کے مترادف اقدام ہوگا۔

لبنان اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی کسی بھی نئی براہ راست جنگ کے خطرات سے متعلق حزب اللہ کی قیادت اور خاص طور پر سید حسن نصر اللہ نے اپنی تقاریر میں اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو کسی بھی نئی جنگ کی شروعات پر کہیں بھی امان نہیں ملے گی۔ انہوں نے حالیہ تقریر میں صہیونی مخالف نظریئے کے یہودیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مقبوضہ فلسطین سے نکل جائیں کیونکہ اسرائیل کی غاصب حکومت ان یہودیوں کو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال کرے گی اور اسلامی مزاحمت اسرائیل کے کسی بھی حملے کے جواب میں خاموش نہیں بیٹھے گی۔

بہرحال، خلاصہ یہ ہے کہ داعش کے خاتمے اور شکست کے بعد امریکا و اسرائیل کی بوکھلاہٹ بڑھتی جارہی ہے اور جو کام وہ پہلے ماضی میں براہ راست نہ کرسکے تھے، اب داعش جیسے سفاک دہشت گردوں کی مدد سے کرنا چاہتے تھے لیکن اس مرتبہ بھی ناکام ہوئے ہیں جبکہ اب سیاسی محاذ پر سعد حریری کی ناکامی کے بعد عرب لیگ کی طرف سے حزب اللہ کے خلاف دیئے جانے والے بیانات واضح طور پر اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکا، اسرائیل، خلیجی عرب ممالک، سب کے سب 2006 میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی شکست کے بعد سے حزب اللہ لبنان کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور خطے میں شروع کی جانے والی دہشت گرد گروہوں کی سفاکیت بھی دراصل حزب اللہ اور اس جیسی دیگر فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریکوں بالخصوص حماس و دیگر کے خلاف سازش تھی جو رفتہ رفتہ ناکامی کا شکار ہوئی ہے۔

آج پوری دنیا امریکا، اسرائیل اور عرب ممالک ایک ایسی اسلامی مزاحمت کے خلاف محاذ آرائی کررہے ہیں کہ جس نے نہ صرف فلسطین اور فلسطینیوں کی مدد میں خود کو سرفہرست رکھا ہے بلکہ دور حاضر میں انسانیت کی بقاء کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے داعش جیسے شجرۂ خبیث کو نابود کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ امیدِ قوی یہی ہے کہ اگر اسرائیل نے کوئی نئی جنگ شروع کی تو پھر وقت قریب ہے کہ اب یہ معرکہ یقیناً فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی پر ہی اختتام پذیر ہوگا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close