بلاگ

اسرائیلی ڈاکٹرائن میں بھارت کی اہمیت

بلاگر: لبیک علی

گذشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ہندوستان کا چھ روزہ دورہ کیا اور ان کا یہ دورہ پندرہ سال بعد کسی اسرائیلی وزیراعظم کا پہلا دورہ تھا جبکہ اس سے قبل ہندوستان کاوزیر اعظم نریندار مودی گذشتہ سال جولائی میں اسرائیل کا دورہ کرچکا تھا اور ان کا یہ دورہ دونوں ممالک میں گذشتہ نصف صدی پر محیط ڈیپلومیٹک تعلقات میں پہلی بار کسی ہندوستانی وزیراعظم کا دورہ اسرائیل شمار ہوتا ہے ۔
اس پہلے کہ ہم اصل موضوع پر آجائیں ضروری ہے کہ بن گورین ڈکٹرین کے بارے میں مختصر کچھ عرض کریں کہ آخر بن گورین کے پیش کردہ اصول کیا تھے کہ جس کی بنیادپر اسرائیل نے اپنی خارجہ پالیسی کو مرتب کیا ہوا ہے ۔
اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم ہیم ایوگڈوگرین (Haim Avigdor Green)کہ جو بعد میں ڈیوڈ بن گورین (David Ben Gurion)کے نام سے مشہور ہوا نے کچھ ایسے اصول اور نظریات پیش کئے تھے جو بعد میں بن گورین ڈکٹرین کے نام سے مشہور ہوئے ۔
ان کی جانب سے اسے پیش کرنے کا اصل مقصد عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے سیاسی و اقتصادی بائیکاٹ اور اس وقت کی پان عرب ازم تحریک کے مقابلے میں تزویراتی یا اسٹرٹیجک طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے راہ حل تھے ۔
اسرائیل کی جغرافیائی کمزور پوزیشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو خطے کے غیر عرب مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات بنانے چاہیے ۔
جغرافیائی اعتبار سے اسرائیل ہرقسم کی تزویراتی گہرائی سے محروم ہے کیونکہ وسیع عرب مسلم خطے کے درمیان ایک انتہائی چھوٹے سے جزیرے کی شکل میں اس کے وجود کی بنیاد ڈالی گئی ہے ۔
بن گورین کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے لئے ایٹمی ہتھیار کے ساتھ ساتھ اگر خود کو تنہائی سے نکالنا ہے تو اسے خطے کے غیر مسلم ممالک جیسے ہندوستان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات بنانے کی ضرورت ہے ۔
بن گورین کہتا تھا کہ ترکی ،افریقی ممالک،عراقی کردستان،اور یورپ کے سرحدی ایشیائی ممالک(Caucasus)کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیا جانا چاہیے ۔
اسرائیل کی شروع سے کوشش رہی ہے کہ وہ ہندوستان کو مسلم اور عرب ممالک سے الگ کرکے اپنا اہم اتحادی بنالے ۔
اسرائیل سمجھتا ہے کہ ہندوستان دنیا کی دوسری بڑی آبادی کے ساتھ ایک بڑی مارکیٹ بھی رکھتاہے جہاں مذہبی تنوع موجود ہے اور ہندوستانی اہم ملکی شخصیات کی اسرائیلی اہم شخصیات کے ساتھ ذاتی نوعیت کے روابط بھی موجود ہیں ۔
دوسری جانب ہندوستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ملک کی مسلم آبادی اور امیر خلیجی ممالک کے ساتھ وابستہ مفادات کو بھی پیش نظر رکھتا آیا ہے لیکن اسرائیل اور عربوں کے درمیان انجام پانے والے معاہدوں نے اسے یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ کھلے انداز سے اپنے تعلقات کو آگے بڑھائے ۔
گرچہ امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات بھی اسرائیل اور ہندوستان کی قربتوں کا ایک اہم سبب ضرور ہے۔
تاریخی اعتبار سے اسرائیل اور ہندوستان میں تعلقات کا آغاز جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے دور سے شروع ہوا کہ جس وقت ہندوستان غیر وابستہ ممالک کی تحریک میں مرکزی کردار ادا کررہا تھا ۔
لیکن 1992کے بعد ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں انتہائی گرم جوشی دیکھی جاسکتی ہے یہاں تک آج اسرائیل ہندوستان کی فوجی ضرورریات کو پورا کرنے والا اہم ترین ملک بن کر رہ گیا ہے۔
سن 2017میں اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت اور اسرائیل کے درمیان تجارت کا تبادلہ چار ارب ڈالر کو چھو گیا ہے ۔
اسی دوران ہندوستان جو کہ پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں خطے کے عرب ممالک کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک توازن کی کوشش میں رہتا تھا اب مکمل اپنی پالیسی بدل چکا ہے ۔
ہندوستان اسرائیل کیخلاف نسل پرستانہ بل کی حمایت میں ووٹ دینا والا اپنا ووٹ واپس لے لیتا ہے اور عالمی فورمز میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتا دیکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب عالمی فورمز میں پاکستان کیخلاف ہندو ستان کی حمایت بھی ایک عام سی بات بن چکی ہے ۔
ستمبر اور اس کے بعد نومبر 2001میں اسرائیلی سیکوریٹی ایڈوائزر اوزی ڈین اور سیکرٹری دفاع آموس یارون کے دورہ ہندوستان کے دوران دونوں ملکوں میں عسکری تعاون پر معاہدے ہوجاتے ہیں کہ جس میں زرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل اپنے ان تجربات اورمہارتوں کو ہندوستان کے ساتھ شئیر کرنے کی آمادگی ظاہر کرتا ہے جو مقبوضہ فلسطین میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے وہ استعمال کرتا رہا ہے تاکہ ہندوستان اسے مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کرتے کشمیری عوام کیخلاف بروئے کار لاسکے ۔
جبکہ صرف ایک سال بعد ہی 2002اسرائیلی وزیر خارجہ ہندوستان کا دورہ کرتا ہے اور طرفین میں مزید عسکری تعاون میں پیشرفت کے ساتھ دہشتگردی کیخلاف مشترکہ کوششوں کے معاہدے ہوتے ہیں یوں کبھی دھلی اور تل ابیب تو کبھی مقبوضہ قدس میں دہشتگردی کیخلاف تعاون کے عنوان سے متعدد ملاقاتیں اور میٹنگز معمول بن جاتی ہیں ۔
دونوں ممالک میں موجود مشترکات میں سے ایک اہم نکتہ اشتراک دہشتگردی کی مشترکہ تعریف اور اس کے مظاہر ہیں کہ جس میں جہاں اسرائیلی قبضے کیخلاف فلسطینیوں کی جدوجہد دہشتگردی قرار پاتی ہے تو وہیں پر کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی بھی دہشتگردی قراردی جاتی ہے ۔
سن 2002میں اسرائیلی اخبار ہاآرٹس انکشاف کرتا ہے کہ اسرائیل اور ہندوستان اسپیس ٹیکنالوجی میں بھی مشترکہ تعاون کررہے ہیں کہ جس میں اسرائیل نے ہندوستان کو فضائی تحقیقات کے لئے انتہائی جدید آلات فراہم کیا ہے
سن 2003میں اسرائیل وزیر اعظم ایریل شارون کے دورہ ہندوستان کے دوران اسرائیل اپنا جدید انتباہی سسٹم فالکن ہندوستان کو فروخت کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے جبکہ اس سے اگلے سال اسرائیلی وزیر خارجہ کے دورہ ہندوستان کے وقت ہندوستان اسرائیل سے مزید پیشگی انتباہی نظام سے لیس فالکن ریڈار طیارے خریدنے کا معاہدہ کرتا ہے جبکہ صرف دوسال بعد ہندوستان اسرائیل سے پاکستان اور چین کے سرحدی علاقوں کی نگرانی و جاسوسی کے لئے پانچ جاسوس ڈورن طیارے خرید لیتا ہے ۔
سن 2009میں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دو ارب ڈالر کی مالیت پر مشتمل میزائلوں کی خریدو فروخت کا ایک ایسا معاہدہ ہوتا ہے کہ جسے اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا عسکری معاہدہ کہا گیا کہ جس کی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئی گرچہ اتنا ضرورکہا گیا کہ اسرائیل اپنے اہم عسکری سازوسامان بشمول میزائلوں کے ہندوستان کو فروخت کررہا ہے ۔
سن 2014میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف انسانی حقو ق کونسل میں ہندوستان نے اسرائیل کیخلاف ووٹ دینے سے انکار کردیا جو غزہ میں اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف وزرزیوں پر پیش کیاجارہا تھا ،ظاہر ہے کہ ہندوستان کیسے ایسی قرارداد کے حق میں ووٹ دے سکتا ہے کہ جس میں خود بھی ملوث ہے اور وہ آئے دن کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا ارتکاب کررہا ہوتا ہے ۔
گذشتہ سال 2017میں ہندوستان کا وزیر اعظم اپنے دورہ مشرق وسطی میں ایک طرف جہاں تیل سے مالامال عرب ممالک کا دورہ کرتا ہے وہیں پراس کا تل ابیب میں انتہائی گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا جاتا ہے ۔
ہندوستان اب تک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کی گرمجوشی کو قدر پوشیدہ اور کم رنگ رکھنے کی اس لئے کوشش میں رہتا تھا کہ عرب مماک سے وابستہ اس کے مفادات کو کوئی زک نہ پہنچے لیکن اب جبکہ خود عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرنا چاہتے ہیں تو ایسے میں ہندوستان کیسے پچھے رہ سکتا ہے ۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مودی کے اس دورے کو تاریخی اور جڑواں پالیسی کانام دیا اور کہا کہ اسرائیل اور ہندوستان گذشتہ کئی دہایوں سے گہری دوستی میں جڑے ہوئے ہیں ۔
نریندار مودی نے اس بات کی بھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی کہ دنیا کے دیگر سربراہوں کی طرح توازن کو برقرار رکھنے کے لئے رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی سے ہی کم ازکم ملاقات کرتا ۔
ہندوستان میں مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید گہرے اور اسٹراٹیجک ہوتے جارہے ہیں طرفین میں تجارت کا حجم اب بڑھ کر ساڑھے چار ارب ڈالر کو تجاوز کرچکا ہے
یہ بات واضح ہے کہ جہاں ایک طرف ہندوستان میں ہندو نسل پرست بھارتیا جنتا پارٹی اور مودی جیسے کٹر ہندو سوچ کے حامل شخص کے وزیر اعظم بننے کے بعد اسرائیل اور ہندوستان میں تعلقات کی نوعیت مزید گہری ہوگئی ہے وہیں پر عرب ممالک خاص کر سعودی عرب جیسے اہم مسلم ملک کے اسرائیل کے ساتھ انجام پانے والے حالیہ معاشقوں کی خبروں نے ان تمام ممالک بشمول ہندوستان کو شہ دی ہے جو اس سے پہلے عربوں سے وابستہ مفادات کے سبب قدر جھجھک رکھتے تھے ۔
ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان جہاں مشترکہ مفادات وابستہ ہیں کہ جس میں ہندوستان کے اسلحے کی ضروریات اسرائیل پوری کررہا ہے اور عالمی سطح پر صیہونی لابی پاکستان اور چین کیخلاف ہندوستان کی مدد کرتی ہے وہیں پر ان دونوں ملکوں میں موجود خاص نسل پرستانہ سوچ کا بھی اشتراک پایا جاتا ہے کہ جو اب ہندوستان میں مودی سرکار کے سبب مزید بڑھتی دیکھائی دیتی ہے ۔
ایک طرف جہاں ہندوستان پاکستان کے وجود کو اب تک ہضم نہیں کرپایا ہے تو دوسری جانب اسرائیل پاکستان اور اس کی ایٹمی صلاحیت کو اپنے لئے خطرناک سمجھتا ہے واضح رہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اسرائیل نے اسے اسلامی بم کہا تھا جو کہ ایک انتہائی غلط طرز فکر ہے جسے ہندوستان اور اسرائیل دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں ۔
اگر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو مسلم ملک ہونے کے سبب اسلامی بم کہا جاسکتا ہے تو پھر ہندوستان اور اسرائیل کے بارے میں بھی ایسی ہی اصطلاح کا استعمال کیوں نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہندو بم اور یہودی بم ہے ۔
ہندوستان کا یہ خواب رہا ہے کہ وہ ایشیا کا پولیس مین بن جائے اور ظاہر ہے کہ اسرائیل اور اس کی لابی اس سلسلے میں اسے مدد فراہم کرسکتی ہے جیساکہ اس وقت اس کا مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اسرائیل کے لئے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ بہتر سے بہتر تعلقات قائم رکھے خاص کر کہ ہندوستان کے ساتھ کہ جو واحدمسلم ایٹمی ملک پاکستان کا ہمسائیہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے وجود کو اب تک ہضم نہیں کرپایا ہے ۔
ہندوستان سے آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل اور ہندوستان مزید عسکری ،تجارتی ،سیکوریٹی اور زراعت کے شعبوں میں تعاون کے علاوہ طرفین میں براہ راست کمرشل پروازوں کی بھی بات چیت ہوئی ہے جس کے لئے سعودی عرب کی فضائی حدودکو استعمال کیا جائے گا ۔
اسرائیلی ٹی چینل نمبر سات کے مطابق سعودی فضائی حدو د کے استعمال سے فیول اور وقت کی بچت ہوگی اور اسے طرفین میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا ۔
گذشتہ چند ماہ میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان غیرسرکاری تجارتی وفود کا تبادلہ دیکھنے کو ملاہے کہ جس میں سعودی غیر سرکاری ایک وفد کا دورہ اسرائیل بھی شامل ہے
اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ ہمسائیہ عرب ممالک کے ساتھ ان تعلقات عنقریب اعلانیہ شکل اختیار کرلینگے جبکہ اسرائیلی اخبار یدیعوت احرنوت کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ٹرین کی پیٹری بچھانے کے ایک منصوبے پر بھی بات چیت چل رہی ہے ۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close