بلاگ

کراچی کے گُم گشتہ سُر

ماضی کا ایک اہم حصہ کھوتا جا رہا ہے۔

1950 سے 1980 کی دہائی تک کراچی میں درجنوں ایسے پاپ اور جاز بینڈ، کلبوں اور ہوٹلوں میں موسیقی بجایا کرتے تھے جہاں ہر شام غیرملکی، مرد، خواتین، سیاست دان اور کاروباری حضرات تفریح کے لیے آیا کرتے تھے۔

ان بینڈز میں مختلف مذاہب کے مرد اور خواتین شریک تھے، لیکن ان کی دھڑکن وہ موسیقار تھے جو انڈیا کی جنوب مغربی ریاست گوا سے تعلق رکھنے والے مسیحی تھے۔ ڈی سوزا، رودریگز، فرنینڈس خاندانوں سے تعلق رکھنے والی یہ برادری 19ویں صدی میں گوا سے کراچی آ کر آباد ہوئی تھی۔

سینٹ لارنس، سینٹ پیٹرکس اور فاطمہ چرچ کراچی کے کچھ ایسے گرجا گھر ہیں جہاں سے یہ موسیقار ابھرے اور ان کے موسیقی نے کراچی کی راتوں کو سُروں سے سجا دیا۔

پھر جیسے جیسے کراچی اور پاکستان کے سُر تال بدلے، درجنوں نے 1960 کی دہائی سے بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں مغرب کا رخ کیا۔ ترکِ وطن کا یہ عمل اس وقت تیز ہوا جب ضیاالحق نے اقتدار سنبھالا اور پاکستان میں اسلام پسند پالیسیاں نافذ کر دی گئیں۔

1977 میں جب پاکستان میں شراب پر پابندی لگی تو نائٹ کلبز اور اس سے وابستہ موسیقی اور رقص بھی گم ہوگئے۔ وہ بینڈ، وہ موسیقی حتیٰ کہ وہ شہر جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ بس چند تصاویر اور گنی چنی ریکارڈنگز کے علاوہ کراچی کا یہ ماضی مٹتا جا رہا ہے۔

مائیکل سیلویسٹر رادریگز

کراچی سے نقل مکانی کر کے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سین ہوزے میں مقیم مائیکل ایک چھوٹے سے فلیٹ میں تنہا رہتے ہیں۔

مائیکل نے اپنے موسیقی کے سفر کا آغاز کراچی کے علاقے گارڈن کے پاس واقع فاطمہ چرچ سے کیا۔ وہ وہاں گرجا گھر کے احاطے میں کھیلتے تھے۔

’ایک پادری فادر کیرن سمتھ نے ہم آوارہ لڑکوں کو موسیقی سکھائی۔‘

چرچ کے بینڈ میں خاص دعوتوں پر پیانو بجانے پر انھیں 50 پیسے مل جایا کرتے تھے جسے وہ چرچ کے باہر باقرخانی اور لسی پر خرچ کرتے تھے۔

مائیکل 17 سال کے تھے جب چرچ کے بعد انہوں نے خواتین پر مشتمل زیویئر سسٹرز نامی بینڈ میں شمولیت اختیار کی۔

وہ کراچی میں قیام کے دوران سات مختلف بینڈز کا حصہ رہے اور شہرت کے ساتھ ساتھ پیسہ اور بقول ان کے ’خوبصورت ساتھ‘ بھی ملا اور وہ اس زندگی میں ایسے مگن ہوئے کہ انجینیئرنگ کی پڑھائی بھی چھوڑ دی۔

1978 میں کراچی کی سیاسی اور امن و امان کی صورتِ حال بدلی تو مائیکل امریکہ چلے گئے جہاں پیٹزا کی دکان سے سفر شروع کر کے کروڑوں کے گھر کے مالک بنے لیکن قسمت نے پھر ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔

لیکن مائیکل نے موسیقی کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اب وہ سین ہوزے کے ایک مقامی چرچ کے بینڈ میں شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں چرچ سے دور ہوا تو میری زندگی غلط موڑ پر چلی گئی تھی۔ اب میں اس کی تصحیح کرنا چاہ رہا ہوں۔‘

رولینڈ ڈی سوزا

رولینڈ ڈی سوزا اسی محلے میں رہتے ہیں جس کی تعمیر میں ان کے دادا نے حصہ لیا تھا۔

یہ کراچی کے گارڈن ایسٹ کا علاقہ ہے جسے ایک زمانے میں سنسینیٹس ٹاؤن کہا جاتا تھا۔

1930 کی دہائی میں یہاں سو سے زیادہ گوؤن مسیحی خاندان تھے جو کھلے، ہوا دار بنگلوں میں رہتے تھے۔ اب ان بنگلوں میں سے تین ہی رہ گئے ہیں اور باقی کی جگہ اونچی عمارتوں اور فلیٹس نے لے لی ہے۔

رولنڈ اب کاروبار کے ساتھ ساتھ شہر کے مسائل پر کام کرتے ہیں لیکن 13 سے 16 سال کی عمر کے درمیان وہ ایک چرچ کے بینڈ میں گٹار بجایا کرتے تھے۔

’میری والدہ نے اصرار کیا کہ میں اپنی پڑھائی مکمل کروں اور اس وقت میں ناراض ہوا تھا لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے صحیح مشورہ دیا تھا۔‘

رولینڈ کا لڑکپن میں موسیقی سے قائم ہونے والا رشتہ کئی دہائیوں بعد اب بھی برقرار رہے اور وہ اپنے گھر پر ہونے والی دعوتوں اور سینٹ لارنس چرچ میں گٹار بجاتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں ماحول بہت بدل چکا ہے۔

’بینڈ اب بھی ہیں، لیکن بہت کم۔ پہلے کانسرٹ، آپرا اور کئی تقریبات ہوا کرتی تھیں۔ پھر ہماری برادری کے سب سے باصلاحیت لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔‘

لوئی جے پنٹو

لوئی جے پنٹو عرف گمبی ایک ڈرمر ہیں اور آج کل پاکستان کے مشہور گلوکار راحت فتح علی خان کے ساتھ ریکارڈنگ کر رہے ہیں۔

گمبی نےگذشتہ 20 برس میں ملک کے کئی مشہور پاپ بینڈز اور گلوکاروں کے ساتھ کام کیا ہے۔

کراچی کے متمول علاقے ڈیفنس میں لوئی جے پنٹو کا گھر بھی ہے اور سٹوڈیو بھی اور ان کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ تر اپنے سٹوڈیو میں ہی پائے جاتے ہیں۔

رولینڈ اور مائیکل کی طرح گمبی کو بھی موسیقی سے لگاؤ چرچ کی سروس سے ہوا اور پھر 11 سال کی عمر میں انھیں سیالکوٹ سے منگوائی گئی ڈرم کٹ تحفے میں ملی۔

ماضی کے مسیحی بینڈز کو یاد کرتے ہوئے لوئی پنٹو کا کہنا ہے کہ ’جب وہ بینڈ ہوا کرتے تھے تو میں دس سال کا تھا اور مجھے وہ سماں یاد ہے جب رقص اور موسیقی ہوا کرتی تھی۔ میں دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور جب یہ سب ختم ہوا تو میں سوچا کرتا تھا کہ ایسا کیوں ہوا؟‘

تاہم ان کے خیال میں پاکستان میں موسیقی کبھی رکی نہیں بس اس کا خاکہ بدل گیا۔

’ کلبز کے بعد عالمگیر آئے، محمد علی شہکی آئے۔ پھر نوے کی دہائی میں پاپ موسیقی آئی۔ ہماری برادری کے لوگ مایوس ہو کر ملک سے باہر چلے گئے لیکن میں نے پاکستان میں رہ کر پاکستانی موسیقی بنانے کا انتخاب کیا۔ چاہے وہ جس قسم کی ہو۔‘

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close