بلاگ

کراچی، اسٹریٹ کرائمز کا روز بروز بڑھتا گراف

رپورٹ: ایس حیدر

شہر کراچی جو کہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی اور لاقانونیت کی لپیٹ میں رہا ہے، دہشت گرد بم دھماکوں، کریکر حملوں کے ساتھ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں اور بھتہ خوری کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں، جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے باعث روز متعدد لوگ جاں بحق ہوجاتے تھے۔ ان جرائم کے خاتمے کے لئے کراچی میں آپریشن کیا گیا اور رینجرز و پولیس کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں جہاں دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم کے گراف تیزی سے گرے ہیں، وہیں دوسری جانب اسٹریٹ کرائمز اور لوٹ مار میں ملوث ملزمان اتنے آزاد ہوگئے ہیں کہ کھلے عام اسلحے کی نمائش کرتے ہوئے روز درجنوں شہریوں سے نقدی و موبائل فون لوٹ رہے ہیں، جبکہ معمولی سی مزاحمت پر گولیاں مارنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے ہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں موجود پولیس و رینجرز اہلکار تاحال بے قابو جن کو قابو کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، روز ہی حکام بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، کارکردگی کے انبار لگا دیئے جاتے ہیں، محکمے کے لئے جدید اسلحے اور گاڑیوں کی خریداری کی باتیں کی جاتی ہیں، جبکہ دیگر وسائل کی جلد از جلد فراہمی کی بھی یقین دہانی کروائی جاتی ہے، تاہم وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے، تاحال نہ تو جدید اسلحہ ملا ہے نہ ہی جدید گاڑیاں فراہم کی جاسکی ہیں اور نہ ہی دیگر وسائل کی فراہمی ممکن بنائی جاسکی ہے۔ شہر میں آپریشنز کے دوران بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا جاتا رہا ہے، تاہم اس کے باوجود شہر میں ابھی بھی بڑی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ موجود ہونے کی اطلاعات ہیں۔

کراچی آپریشن کے آغاز سے لے کر اب تک بارہا پولیس کے کمانڈنگ افسران تبدیل ہوچکے ہیں اور ہر افسر نے اپنا چارج سنبھالتے ہوئے یہی عزم ظاہر کیا کہ وہ شہر میں ہونے والی اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کا خاتمہ کریں گا لیکن افسر آتے اور چلے جاتے ہیں مگر اسٹریٹ کرائمز کا گراف روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کوئی سرکاری گاڑی چھین لی جاتی تھی تو پولیس والوں کی دوڑیں لگ جاتی تھیں، تاہم شہر سے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کا دعویٰ کرنے والی پولیس فورس شہر کے صرف ایک ضلع ساؤتھ کے پوش علاقوں سے چھینی جانے والی سرکاری گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی روک تھام تو کجا اس میں ملوث ملزموں کا سراغ تک نہیں لگا سکی ہے۔

شہر میں اسٹریٹ کرائمز تو معمول کی وارداتیں ہیں، اب چند دنوں سے شہر کے پوش علاقوں جن میں گلشن اقبال، بہادرآباد، نارتھ ناظم آباد، کلفٹن سمیت دیگر علاقوں میں کار سوار ملزمان کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ کار سوار ملزمان آتے ہیں، فیملیز کو اسلحے کے زور پر یرغمال بناتے ہیں اور لوٹ مار کرکے بآسانی فرار ہوجاتے ہیں، اس حوالے سے بارہا سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی ہیں لیکن پولیس کی جانب سے اس طرز کے ملزمان کے خلاف کوئی مؤثر حکمت عملی نظر نہیں آ رہی ہے اور اس شہر میں بسنے والے کروڑوں شہری اسٹریٹ کرمنلز کے رحم و کرم پر ہیں۔

اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں رواں سال کے 8 ماہ میں 33 سرکاری گاڑیاں چھینی یاچوری کی گئیں۔ اسٹریٹ کرائمز کے حوالے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں پچھلے کچھ ماہ میں اضافہ ہوا ہے، سیف سٹی کا پروجیکٹ کسی ادارے کی وجہ سے پڑا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کی طرح اسٹریٹ کرائمز پر بھی قابو پالیں گے۔

دوسری جانب کراچی پولیس چیف ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر امیر شیخ نے بھی گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کیلئے ایک ہزار موٹر سائیکل سواروں پر مشتمل خوصی اسٹریٹ واچ فورس تشکیل دی جائے گی، پولیس کو معلومات فراہم کرنے والے شہریوں کو انعام دیا جائے گا، اسٹریٹ کرائم پر جلد قابو پالیں گے، توقع ہے اس سلسلے میں جلد پیش رفت سامنے آئے گی۔

حکومت اور پولیس کے یہ بلند و بانگ دعویٰ اپنی جگہ لیکن حقیقیت سے انکار ممکن نہیں کہ ان دعووں کے برعکس معاملہ ہے، اسٹریٹ کرائمز کا جن بڑھتا ہی جارہا ہے اور ہماری پولیس کو اس کرمنلز کے بارے میں بنیادی معلومات ہی نہیں ہیں۔ کراچی کی عوام جو پہلے ہی متعدد مسائل کا شکار ہوکر ذہنی اذیت کا شکار ہیں، ان کے لئے اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتیں انتہائی پریشانی کا باعث ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close