تعلیم و ٹیکنالوجی

تولید کا عمل مسلسل جاری کیوں نہیں رہتا

آخر خواتین اپنی زندگی کے نصف تک پہنچنے کے بعد مزید بچے پیدا کرنے کے قابل کیوں نہیں رہتیں، حالانکہ ڈارون کے قدرتی چناؤ کے نظریے کے تحت تولید کا عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے؟

اب کِلر ویل پر کیے جانے والی ایک تحقیق سے اس معمے کے حل میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ انسانوں کے علاوہ کلر ویل اور ویل کی ایک اور نسل شارٹ فن پائلٹ ویل ہی ایسے جانور ہیں جن کی مادائیں اس عمل سے گزرتی ہیں۔

ایک نظریہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ خواتین کی اصل عمر وہی ہے جس میں وہ سن یاس تک پہنچتی ہیں، اس کے بعد بقیہ زندگی کی وجہ صرف طبی سہولیات ہیں۔ لیکن ویل میں سن یاس کی موجودگی اس نظریے کی نفی کرتی ہے۔

یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے پروفیسر ڈیرن کرافٹ کہتے ہیں کہ ’ارتقائی نقطۂ نظر سے اس بات کی وضاحت مشکل ہے کہ آخر کوئی فرد اتنی جلدی بچے پیدا کرنا بند کیوں کر دیتا ہے؟ لیکن ویل پر تحقیق سے اس عمل کے ارتقا پر روشنی پڑ سکتی ہے۔‘

سوال یہ ہے کہ کیا بڑی عمر کی ماداؤں کا ان کے خاندان کو کوئی خصوصی فائدہ پہنچتا ہے جس کی مدد سے ان کے بچے پیدا نہ کر پانے کی کمی کی جینیاتی تلافی ہو سکے؟

سائنس دانوں نے کلر ویل کی سینکڑوں گھنٹوں پر مشتمل ویڈیوز کے مشاہدے سے نتیجہ اخذ کیا کہ ادھیڑ عمر کلر ویل ’قیادت کے فرائض سرانجام دیتی ہیں اور اپنے خاندانوں کو خوراک تک پہنچانے میں رہنمائی کرتی ہیں۔‘

اہم بات یہ ہے کہ بڑی بوڑھیاں اس وقت زیادہ فعال ہو جاتی ہیں جب خوراک کم ہو جائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پورا خاندان ان کے تجربے اور ماحولیاتی معلومات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

کرافٹ کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل انسانوں کی طرح ہے۔ گوگل سے پہلے اگر ہمیں یہ پوچھنا ہوتا تھا کہ فلاں دکان کہاں ہے یا اگر قحط سالی آنے والی ہے تو ہم برادری کے بزرگوں کے پاس یہ پوچھنے جاتے تھے کہ خوراک اور پانی کہاں ہیں۔ اس قسم کا علم عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔‘

یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ویل کے بالغ بیٹے اس علم سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں۔

دنیا میں بچے کھچے چند قبائل جو آج بھی قدیم زندگی کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں، ان کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ بڑی بوڑھیاں اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کی پرورش اور بقا میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

یونیورسٹی آف یوٹا کے کرسٹن ہاکس نے تنزانیہ کے ہادزا قبائل پر تحقیق سے نتیجہ نکالا کہ بوڑھیاں نوجوان عورتوں کے مقابلے پر خوراک ڈھونڈنے میں زیادہ محنت کرتی ہیں۔

پروفیسر کرافٹ کے خیال میں ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ اور وہ یہ کہ سن یاس کی وجہ سے ماں اور اس کی بیٹی کے ایک ساتھ بچے پیدا نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان میں خوراک یا بچوں کی پرورش کے لیے مقابلے کا رجحان کم ہو جاتا ہے۔ عام طور پر ویل مچھلیوں کا پورا گروہ مل کر بچوں کی پرورش میں ہاتھ بٹاتا ہے۔

کرسٹا ڈی سوزا سن یاس کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’یہ خیال کہ عورتیں علم آگے منتقل کرتی ہیں اور عمر کے ساتھ عقل بڑھتی ہے۔ یہ بات بڑی خوبصورت ہے کہ بچے پیدا کرنے کے علاوہ بھی (دنیا میں) کوئی اور چیز ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close