Featuredاسلام آباد

ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان ایسے ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر

ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان ایسے ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر ہے کہ اسکے مجموعی قرضے ان 22 سالوں میں 15 سو فیصد سے تجاوز کرچکے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون کے منسلک نامہ نگار اور معاشی تجزیہ نگار شہباز رانا کے مطابق 2000ء سے اب تک ہر دور حکومت کے اختتام پر چاہے وہ جمہوری ہو، آمریت ہو ہا ہائیبرڈ نظام ہو، اس قرضے میں دوگنا اضافہ ہوا۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سن 2000ء میں یہ عوامی قرضے 3 اعشاریہ 1 ٹریلین روپے تھے جبکہ 2008ء میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کے اختتام پر وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ قرضے 6 اعشاریہ 1 ٹریلین روپے تک پہنچ چکے تھے۔ ایسے پاکستان کے عوامی قرضوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔

ایسے ہی سن 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ قرضوں میں 130 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 14 اعشاریہ 3 ٹریلین روپے ہوگئے جبکہ یہی قرضے 2018ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے اختتام پر 76 فیصد اضافے کیساتھ 24 ٹریلین روپے تک پہنچ چکے تھے۔

اس کے بعد آنے والے پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کے قرضوں میں کمی کرکے یہ بوجھ کم کریں گے لیکن ان کے 43 مہینوں کے دور حکومت کے ختم ہونے پر پاکستان کے عوامی قرضے 77 فیصد اضافے کیساتھ 44 اعشاریہ 3 ٹریلین روپے تک پینچ گئے تھے۔

آج پاکستان کا کل قرضہ 60 ٹریلین روپے سے تجاوز کرچکا ہے اور صرف پچھلے ایک سال کے دوران اس میں 12 ٹریلین رو پے کا اضافہ ہوا۔

ان قرضوں میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں مقامی کرنسی کی قدر میں کمی، حکومتی سطح پر آمدن سے زائد اخراجات اور کمزور حکومتی ڈھانچہ شامل ہیں۔ معروف معیشیت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس وقت ملک کو غیرملکی قرضوں کی مد میں 23 بلین ڈالر ادا کرنا ہیں جن میں سے زیادہ تر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کو ادا کیے جانے والے چھوٹے کاروباری قرضے ہیں۔

آج پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 6 بلین ڈالر ہیں جو ملکی درآمدات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہیں۔ اب تکنیکی حوالے سے پاکستان ڈیفالٹ ہوچکا ہے کیونکہ ملکی خزانہ اس قابل نہیں کہ چین، سعودی عرب یا متحدی عرب امارات سے لیا ہوا قرض واپس دے سکے۔ اب اس مشکل سے بچنے کیلئے حکومتی سطح پر کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے حکومت کو بجٹ میں مدد فراہم کرنے والے اور غیرملکی کاروباری قرضوں کی سکمیوں سے بچنا ہوگا تاکہ ملکی خزانے پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔

اس کے علاوہ عوامی سطح پر بھی کچھ اقدامات کرنا ہوں گے۔ جیسے کاروباری حضرات کو پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملنے والی ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے اور فوجی اور سویلین ہر طرح کے کاروبار ٹیکس کے دھارے میں لائے جائیں۔

اگر پاکستان کو بین الاقومی سطح پر ایک معتبر قوم کے طور پر اپنی پہچان بنانی ہے تو کچھ مشکل فیصلے موجودہ حالات میں ناگزیر ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close