Featuredاسلام آباد

پاکستان کے سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف انتقال کرگئے

پاکستان کے سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف انتقال کرگئے ہیں۔

سابق صدر پرویز مشرف آج بروز اتوار 5 فروری کو متحدہ عرب امارات ( یو اے ای ) کے شہر دبئی میں انتقال کرگئے ہیں۔ وہ دبئی میں امریکی اسپتال میں زیر علاج تھے اور طویل عرصے سے علیل تھے۔

عسکری ذرائع کی جانب سے بھی سابق صدر کے انتقال کی خبر کی تصدیق کی گئی ہے۔ قوی امکان ہے کہ سابق آرمی چیف کے جسد خاکی کو پاکستان لایا جائے گا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کو راولپنڈی کے آرمی قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ موصول خبروں کے مطابق سابق صدر کا جسد خاکی لانے کیلئے اسپشل طیارہ نور خان ائربیس سے دبئی کے المکتوم ائرپورٹ پہنچے گا۔ واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی والدہ دبئی اور والد کی کراچی میں تدفین کی گئی تھی۔

کراچی سابق صدر کی رہائش گاہ
کراچی میں پرویز مشرف کی خیابان توحید میں واقع رہائشی گاہ پر خاموشی ہے، گلی کے باہر پولیس موبائل اور سادہ لباس اہلکار موجود ہیں۔ اہلکاروں کے مطابق گلی میں غیر متعلقہ افراد کو اندر جانے کی اجازت نہیں، اب تک کسی سیاسی یا سماجی شخصیت نے اس جگہ کا رخ نہیں کیا۔

https://twitter.com/faraznoor96/status/1622121547937759232?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1622121547937759232%7Ctwgr%5E73b3e62449cec6df004dd5296ed4b3df4a74851f%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.samaa.tv%2Fnews%2F40015479

 

سابق صدر پرویز مشرف 18 مارچ، 2016 سے متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں علاج کی غرض سے مقیم تھے۔

انتقال کی افواہیں
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے بھی متعدد بار سابق صدر اور آرمی چیف جنرل مشرف کے انتقال کی افواہیں منظر عام پر آئیں، جس پر اہل خانہ کی جانب بارہا تردید کا بیان جاری کیا گیا۔

پرویز مشرف کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ ماہ سے شدید علالت کے باعث دبئی کے اسپتال میں داخل ہیں۔ ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے سابق آرمی چیف کے اہلخانہ نے بیان جاری کیا ہے کہ پرویز مشرف ’خرابی صحت کے اس مرحلے میں ہیں جہاں صحت یابی ممکن نہیں اور اعضا خراب ہو رہے ہیں۔‘

پرویز مشرف کے گھر والوں کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ان کی روزمرہ زندگی میں آسانی کے لیے دعا کریں۔‘

پرویز مشرف کو کون سا مرض لاحق تھا؟
ذرائع کے مطابق پرویز مشرف ایمالوئڈوسس نامی ایسی بیماری میں مبتلا تھے، جس میں پروٹین کے مالیکیول درست طریقے سے تہہ نہیں ہوتے، اس لیے اپنا کام نہیں کر پاتے۔ ایمالوئڈوسس میں پروٹین کا مالیکیول بنتا تو درست طریقے سے ہے، لیکن فولڈنگ میں گڑبڑ ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔

یہ ایک دائمی میٹابولک بیماری ہے جس میں دل ، گردے، جگر اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچتا ہے۔

زندگی پر ایک نظر
واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف 11 اگست 1943ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، 1964 برس میں پاکستان کی بری فوج میں شامل ہوئے، بعد ازاں انہوں نے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی ) میں شمولیت اختیار کی۔

بھارت کے ساتھ 1971 کی جنگ کے دوران پرویز مشرف ایس ایس جی کمانڈو بٹالین کے کمپنی کمانڈر تھے۔ 1971 کے بعد انہوں نے کئی عسکری اسائنمنٹس میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور فوج میں تیزی سے ترقیاں حاصل کیں۔

انہوں نے بھارت کے ساتھ ہونے والی 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی شرکت کی۔ 7 اکتوبر 1998 کو وہ بری فوج کے چیف آف اسٹاف کے منصب پر فائز ہوئے۔

انہیں امتیازی سند سے بھی نوازا گیا تھا۔

ان کی حکمرانی میں پاکستان 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر دہشت گرد حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا کلیدی اتحادی بن گیا۔

انہوں نے نیٹو کی جانب سے فوجی ساز و سامان کو پاکستان کے ذریعے لینڈ لاک افغانستان تک پہنچانے کی منظوری اور امریکا کو پاکستان کے ہوائی اڈوں کو لاجسٹک سپورٹ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی۔

12 اکتوبر 1999 کو انہوں نے بحیثیت آرچیف چیف اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کرلیا تھا، اور ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں اسمبلیوں نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی تھی۔ تاہم 9 سال بعد پرویز مشرف فوج کے سربراہ کے عہدے سے 28 نومبر 2008 کو سبکدوش ہوگئے تھے اور صدارت سے مستعفی ہو کر ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

پرویز مشرف نے اکتوبر 2002 میں عام انتخابات کرائے جس کے دوران انہوں نے پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل-ق)، متحدہ قومی موومنٹ اور 6 مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نامی جماعت کے ساتھ اتحاد کیا۔

جنوری 2004 میں پرویز مشرف نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے 56 فیصد کی اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا اور ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے متنازع قرار دیے گئے عمل میں وہ منتخب ہوگئے۔

سال 2006 میں پرویز مشرف کی خود نوشت ’ان دی لائن آف فائر ’کے عنوان سے شائع ہوئی۔

صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد ان پر متعدد بار دہشت گرد حملے بھی کیے گئے۔ سال 2007 میں سابق صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی، جب کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کرنے کی وجہ سے ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔

ایمرجنسی کے 25 دنوں کے اندر پرویز مشرف نے اپنے آرمی چیف کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، ان کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ چارج سنبھال لیا۔

لندن اور دبئی میں قیام کے دوران انہوں نے کئی لیکچرز بھی دیئے۔

پرویز مشرف پر حملے کب اور کہاں ہوئے؟
جنرل پرویز مشرف پر 14 اور 25 دسمبر 2003 کو راولپنڈی میں دو قاتلانہ حملے کیے گئے تھے، جن کے الزام میں کل 16 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ان میں سے آٹھ افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے 14 دسمبر کو راولپنڈی کے علاقے جھنڈا چیچی میں ایک پل کو اس وقت بم سے نشانہ بنایا جب جنرل مشرف کا قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا، اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

جب کہ دیگرآٹھ ملزمان پر راولپنڈی ہی کے علاقے میں جھنڈا چیچی کے نزدیک دو مختلف پٹرول پمپس کے قریب جنرل مشرف کے قافلے پر خودکش حملوں کا الزام تھا جس سابق صدر تو محفوظ رہے لیکن خودکش حملہ آوروں سمیت 12 افراد مارے گئے تھے۔

جن ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے دو کا تعلق فوج جب کہ چھ کا پاکستان فضائیہ سے تھا جب کہ دیگر گرفتار افراد سویلین تھے۔

حملے کے جرم میں گرفتار افراد میں سے ایک پاکستانی فوج کے سپاہی اسلام صدیقی کو2005 میں ملتان جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی، جب کہ ایئرفورس سے ہی تعلق رکھنے والے سینئر ٹیک کرم دین اور جونیئر ٹیک نصراللہ کو عمر قید جب کہ ایک سویلین عدنان خان کو 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔

سابق صدر پر حملے میں ملوث ہونے کے جرم میں موت کی سزا پانے والے 12 افراد میں فوج کے نائیک کے علاوہ ایئرفورس کے چار اہلکار شامل تھے۔

انگریزی ماہ نامہ ہیرالڈ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 25 دسمبر کے حملے کیلئے رانا نوید کے اے ڈی بی پی کالونی میں واقع فلیٹ میں اسلحہ رکھا گیا تھا۔

مواخذے کی کارروائی سے قبل استعفیٰ
سال 2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی زیرِ قیادت مخلوط حکومت نے پرویز مشرف کو رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کا موقع دینے کے بعد ان کے مواخذے کے لیے پارلیمانی طریقہ کار پر شروع کردیا تھا۔

پروز مشرف نے ابتدا میں استعفیٰ دینے سے انکار کیا اور جب اتحادی حکومت نے ان کی برطرفی کے لیے باضابطہ کارروائی شروع کی تو مواخذے کے حتمی انجام تک پہنچنے سے پہلے انہوں نے رضاکارانہ طور پر عہدہ چھوڑ دیا۔

پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی کے قتل اور نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے بعد 62 ججز کی ’غیر قانونی قید‘ سے متعلق مقدمات میں بھی نامزد کیا گیا تھا، تاہم مارچ 2013 میں سندھ ہائی کورٹ نے انہیں تینوں مقدمات میں حفاظتی ضمانت دے دی۔

سال 2010 میں سابق فوجی حکمران نے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کا آغاز کیا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close