Featuredاسلام آباد

دنیا آج بھی ہمیں دہشت گردوں کا ساتھی سمجھتی ہے، سید خورشید شاہ

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ جو ڈیل کرنے جا رہی ہے، اس پہ ایوان کو اعتماد میں لے۔ نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیں ”میٹ دی پریس“ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما و قومی اسمبلی میں سابقہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس معیشت سمیت ملکی بہتری کے لئے کوئی پالیسی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گالم گلوچ سے عوام کے پیٹ نہیں بھرتے، اسد عمر نے کہا تھا کہ عوام کی چیخیں نکلے گی واقعی عوام کی چیخیں نکل رہی ہے۔ حکومت کا کام عوام کو ریلیف دینا ہے نہ کہ عوام کی چیخیں نکالے۔ عوام میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے لوگ اپنا پیسہ چھپا رہے ہیں ملک کی موجودہ حالات حکومت کی کنڑول سے باہر ہے۔ اس نو مہینوں میں سرمایہ کار ملک سے بھاگ گئے بجائے کہ پاکستان میں اپنا پیسہ لگائے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں اسے لایا گیا ہے: خورشید شاہ

ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت میں ہم نے عوام کو خوشحال رکھا اور ساتھ ہی دہشت گردی کا مقابلہ بھی کیا۔ اس وقت ملک میں بجلی، گیس سمیت دیگر اشیائے خوردونش کی قیمتیں آسان سے باتیں کر رہی ہیں۔ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے 9 مہینے لگائے لیکن بدقسمتی سے کوئی بھی ایک کام عوام کی بہتری کا نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے خیبر پختونخوا کی 70سالہ محرومیوں کو دور کیا۔گلگت بلستان کو حقوق دیئے۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق کے 56 فیصد شیئرز کو کم کرکے 43 فیصد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت صوبوں کی مضبوطی کے ساتھ وفاق پر بھی یقین رکھتی ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

انہوں نے کہا ملکی بہتری کے لئے ہر ادارے کو اپنی دائرے اختیار میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ حکمران الیکشن سے قبل غریب کی بات کرتے ہیں اور سہانے خواب دکھاتے ہیں۔ جب اقتدار میں آتے ہیں تو سب بھول جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت قرض نہ لینے کا کہتی تھی لیکن آج قرض کے لیے بے قرار ہیں۔ اس حکومت نے آتے ہی ستر سالہ ریکارڈ توڑا اور بے تحاشا قرضے لیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جواب دینے کو تیار ہیں کہ 2013 میں جی ڈی پی 5.3 تھی جو اب 2.4 ہے۔ جن شرائط پر ہم قرض لینے جارہے ہیں وہ ناقابل عمل ہیں لیکن کوئی اور چارہ بھی نہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو ڈیل کرنے جارہے ہیں پارلیمان کو آگاہ کیا جائے۔ ہمیں آگاہ کریں تو شاید ہم کوئی مدد کرسکیں۔ پی ٹی آئی سے اختلاف کے باوجود قومی نقصان نہیں چاہتے۔ اپنے وزیر کو ہٹانے سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے اپنی ناکامی کا۔

ان کا کہنا تھا کہ شوکت ترین کو ہم نے نہیں نکالا، حفیظ شیخ نے تین سال معیشت چلائی۔اگر حفیظ شیخ غلط تھے تو آج آپ کا حصہ ہیں پوچھ لیں کہ اتنے قرضے کیوں لیے۔ اسد عمر نے ٹھیک کہا تھا کہ عوام کی چیخیں نکلیں گی لیکن ہم عوام کی چیخیں روکنے کے لیے آتے ہیں۔ ہمارے دور میں دنیا کی سب سے بڑی مائیگریشن ہوئی اور تین ماہ میں لاکھوں لوگ گھروں کو واپس گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے 80 لاکھ ملازمین کی تنخواہوں میں 125 فیصد اضافہ کیا۔ بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام میں اربوں روپے ادا کیے گئے۔این ایف سی کے تحت صوبوں کا حصہ بڑھایا گیا، ہم صوبوں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ہم نے کبھی طالبان یا دہشت گرد تنظیموں کی حمایت نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا آج بھی ہمیں دہشت گردوں کا ساتھی سمجھتی ہے لیکن سب سے زیادہ قربانیاں ہم نے ہی دی ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ پیسہ نہیں اور دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیا۔ ہم نے ثابت کیا کہ گورننس کیا ہوتی ہے۔ کے پی کے میں اسپتال ویران ہو گئے ہیں۔ نو ماہ میں ایک بات جو عوام کے مفاد میں کی گئی ہو صرف کرپشن کے خلاف بھاشن ہیں۔

سرمایہ کاری اب تک نہیں آئی لیکن کرپشن کے الزامات لگا لگا کر سرمایہ کاروں کو روکا۔ ڈالر کی پاکستان میں قیمت نہیں، مرضی ہے کہ کوئی جتنا مرضی کا بیچیں۔ آپ کے پاس صرف گالی گلوچ کا ایجنڈا ہے۔ ہر استعمال کی چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگ بچے بیچنے پر آرہے ہیں کہ دوا خریدنے کے پیسے نہیں۔ گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد اضافہ کیا گیا۔ عوامی حکومت ہے کہ چار ہزار فیصد قیمتیں بڑھا دی گئیں۔

یوٹلیٹی سٹور بند کردیے گئے ہیں، غریب کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ لوگ بینک میں نہیں جارہے صرف چھاپوں کے ڈر سے کیش پر کاروبار کررہے ہیں۔ ایمنسٹی اسکیم پر الزام لگائے گئے لیکن ان کی ایمنسٹی اسکیم کن کے لیے ہے۔ کوئی حساب دینے والا نہیں ہے، عوام کا کسی کو خیال نہیں۔ آج بنگلہ دیش کی برآمدات 43 ارب ڈالر کی ہیں اور ہم بیس سے آگے نہیں بڑھ رہے۔معیشت کو نقصان ہوا تو ہمارا دشمن ہمیں مزید نقصان پہنچانے کو آگے آئے گا۔

اپوزیشن نے برے حالات میں ساتھ دیا صرف ملک کے لیے ساتھ دیا۔ فوج کو اس میں شامل نہیں ہونا چاہیے، ہر ادارے کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ نالائقی کے باوجود بھی فوج کو نہیں آنا چاہیے۔ طاقت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، اتحاد پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ہر دور میں ٹیکنوکریٹ رکھے جاتے تھے لیکن اس دور میں حد ہو گئی۔

مشرف کی سب کابینہ لیکر آئے ہیں، عمران خان کو ڈھال بنایا گیا ہے۔ ہم لوگوں کی خوشحالی کے لیے آتے ہیں، لیکن جب لوگوں کے مسائل حل نہ ہونگے تو لوگ مایوس ہونگے۔ میڈیا والے چھپ چھپ کر رو رہے ہیں اور یوٹیوب پر جا کر سچ بول رہے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کمزور ہوگئی اور حکومت کا حصہ ہوکر مظلوم بن رہے ہیں۔

کراچی کو الگ کیا تو پنجابی، پشتون اور دیگر لوگ کہاں جائیں گے۔حفیظ شیخ کو اپنی کابینہ میں لانے کا پروپوزل میرا تھا، اس بات سے کوئی انکار نہیں۔ یہی بات حکومتی وزیر آکر کہتا تو الگ بات ہوتی لیکن فوج کے ترجمان کو نہیں کہنی چاہیے تھی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close