Featuredبلاگ

پاکستان کے آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ، دشمن کیوں خوش ہیں؟؟

تحریر: تصور حسین شہزاد  پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ قریب آرہی ہے۔ جیسے جیسے ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آرہی ہے، پاکستان دشمن قوتیں خوشی کے شادیانے بجا رہی ہیں۔ جنرل باجوہ رواں سال نومبر میں ریٹائرڈ ہوں گے۔ اس حوالے سے کچھ حلقوں نے ابھی سے یہ بحث شروع  کر دی ہے کہ وہ ایکسٹینشن لیں گے یا نہیں، بلکہ جنہیں آرمی کی الف بے کا بھی پتہ نہیں، وہ بھی بڑھ چڑھ کر مشورے دے رہا ہے کہ "باجوہ صاحب، ایکسٹینشن نہ لیں” باجوہ صاحب، ایکسٹینشن نہ لینے میں ہی عزت ہے، باجوہ صاحب، باجوہ صاحب۔۔۔۔۔ لیکن ڈنڈے والی سرکار کیلئے آرمی کے حکام سے زیادہ چند این جی اوز کے ٹھیکیدار اور بھارت کے خیر خواہ زیادہ ہی فکر مند ہیں۔

جنرل باجوہ کے پیش رو جنرل راحیل شریف کے دبنگ انداز سے طالبان سمیت بڑے بڑے تیس مار خان بھی خوفزدہ تھے۔ پھر اچانک جنرل راحیل کو نئی نوکری مل گئی اور انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اگر جنرل راحیل کو "نئی ملازمت” کی پیشکش نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ وہ ایکسٹیشن لے لیتے اور بچے کچھے دہشتگردوں کا بھی صفایا کر دیتے۔

خیر، جنرل راحیل کے جانے کے  بعد کسی نے یہ نہیں کہا کہ "تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔” ریٹائرمنٹ سے قبل جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے پر زور دیا گیا۔ ان کے قائم کردہ ہائی سٹینڈرز پر پورا اترنا کسی بھی جنرل کیلئے ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا، مگر ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد آج تک جنرل باجوہ چھائے ہوئے ہیں، بلکہ جنرل باجوہ نے ذمہ داری سنبھالی تو چاپلوسوں نے ان کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے۔ یہاں تک کہ بھارت سے بھی ایسی آوازیں اٹھیں کہ جنرل باجوہ ایک پروفیشنل فوجی ہیں۔

جنرل باجوہ نے یہ ثابت بھی کیا کہ وہ ایک پروفیشنل فوجی ہیں۔ انہوں نے جہاں فوج میں اصلاحات کیں، وہیں ملک کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کئے۔ انہوں نے پاک ایران تعلقات میں سعودی عرب کی مداخلت کو انتہائی سمجھداری سے ہینڈل کیا۔ سعودی عرب چند ریال دے کر سمجھ رہا تھا کہ اس نے پاکستان اور پاکستان کی فوج کو خرید لیا ہے جبکہ پاکستان کی پالیسی تمام مسلم ممالک کے حوالے سے یکساں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کے مشکل اقدامات کی کامیابی کیلئے سب کو ذمہ داری ادا کرنی ہوگی، جنرل قمر جاوید باجوہ

پاکستانی خارجہ پالیسی کا سنہری اصول آج بھی روشن ہے کہ دو مسلمان ممالک کے درمیان تصادم کی صورت میں پاکستان غیر جانبدار رہے گا اور اب ایران سعودی عرب کشیدگی میں پاکستان نے اسی پالیسی کو اپنایا۔ یمن کے معاملے پر بھی پاکستان نے سعودی عرب کا ساتھ نہیں دیا، البتہ جنرل راحیل اپنی نوکری کی وجہ سے سعودی عسکری اتحاد کی قیادت کی زمام سنبھالنے کیلئے ریاض پہنچ گئے۔

جنرل باجوہ نے بہرحال ایران سعودی عرب معاملے میں اہم کردار ادا کیا اور معاملہ سلجھانے میں کامیاب رہے، ورنہ مشرف ہوتا تو معاملہ کچھ اور ہوتا، کیونکہ جنرل پرویز مشرف کو جب امریکہ نے کہا کہ آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن؟ تو پرویز مشرف صاحب "لیٹ” گئے تھے کہ نہیں جناب ہم تو آپ کے دوست ہیں اور اس دوستی کے قرض کی ادائیگی میں وہ قسطیں بھی ادا کی گئیں جو فرض نہیں تھیں۔

ضیاءالحق کے بعد پرویز مشرف وہ فوجی حکمران تھے، جنہوں نے ملک کی سلامتی کیلئے خسارے کا سودا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ آج بھی فوج کیخلاف ہے۔ آج بھی "پٹواریوں” کی ایک بڑی تعداد فوج کو گالیاں دیتی دکھائی دیتی ہے۔

جنرل باجوہ اپنے پیش رو جنرل راحیل شریف کے بہترین جاں نشیں ثابت ہوئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا جو بھی جاں نشیں ہوگا، وہ ان سے کم نہیں ہوسکتا، کیونکہ فوج میں میرٹ ہے اور میرٹ پر ہی جرنیل بنائے جاتے ہیں، سفارش پر نہیں۔ جنرل باجوہ کی پالیسیوں سے جہاں عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہوا، وہاں ملک کے اندر بھی خاطر خواہ تبدیلی آئی۔ جنرل راحیل شریف کی دہشتگردی کیخلاف شروع کی گئی "جنگ” کو جنرل باجوہ نے بہتر انداز میں آگے بڑھایا۔ جنرل باجوہ نے ملک کو سیاسی بحران سے بھی نکالا۔

اس کردار کی وجہ سے فوج پر تنقید بھی کی گئی مگر فوج چونکہ ملکی سلامتی کی ذمہ دار ہے، اس لئے اس کا یہ کردار بھی بنتا تھا کہ ملک میں پیدا ہونیوالا سیاسی بحران اگر سلامتی کیخلاف جا رہا ہے تو اس میں فوج کود پڑے۔ جنرل باجوہ نے اس بحران کو بھی ہینڈل کیا اور کامیاب بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی اقتدار سے محروم ہونیوالی قوتیں موجودہ حکومت کو فوج کی جانب سے ہی سلیکٹڈ قرار دے کر اپنا رانجھا راضی کر لیتی ہیں۔

بہرحال! جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن ملنی چاہیئے یا نہیں؟ اس کی ٹینشن ہمیں لینے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ فوج کا کام ہے اور فوج ہی بہتر انداز میں فیصلہ کرے گی، ہمیں اپنے مشورے اپنے پاس رکھنے چاہیں۔ جہاں تک پاکستان مخالف قوتوں کی فکر مندی کی بات ہے تو انہیں اس چیز کی فکر ستائے جا رہی ہے کہ کہیں جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن نہ مل جائے۔

وہ ابھی سے اس بحث میں مصروف ہیں اور ان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ جنرل باجوہ کو ریٹائرڈ ہی کر دیا جائے۔ پاکستان دشمن قوتوں کے پیٹ میں اٹھتا یہ مروڑ بتا رہا ہے کہ جنرل باجوہ کی کچھ پالیسیاں ایسی ضرور ہیں، جن سے ان قوتوں کو تکلیف ہے۔ اس لئے نئے آرمی چیف کا انتخاب کرنیوالے وزیراعظم کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ اگر جنرل باجوہ ملکی سلامتی کیلئے ضروری ہیں تو انہیں ضرور ایکسٹیشن دی جائے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ "اگر تم نے حق کی پہچان کرنی ہے تو باطل کے تیروں کا رخ دیکھ لیں، جس طرف باطل کے تیر جا رہے ہوں گے، اسی طرف حق ہوگا” تو اس وقت ملک دشمن قوتیں باجوہ کی ریٹائرمنٹ کیلئے اصرار کر رہی ہیں، تو لگتا ہے کہ کچھ ایسا ہے ضرور جس کی پردہ داری ہے۔ اس لئے ان قوتوں کی سرکوبی کیلئے باجوہ کو ایکسٹیشن دینی پڑے تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ اہم ملک کی سلامتی ہے، دشمن کی خواہش نہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close