بلوچستان

پولیس کے تربیتی مرکز پر حملے میں 60 اہلکار ہلاک، کم از کم 124 زخمی

حکام نے مطابق یہ حملہ پیر کی شب رات دس بجے کے قریب کیا گیا جب تین خودکش حملہ آوروں نے سریاب پولیس ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا۔

ہسپتال ذرائع اور آئی جی پولیس کے دفتر سے تصدیق کی ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کم از 60 ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں میں زیرِ تربیت اہلکاروں کے علاوہ ریسکیو کرنے والے سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے رات گئے جائے وقوعہ کے دورے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلا حملہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقبی علاقے میں واقع واچ ٹاور پر کیا گیا جہاں موجود سنتری نے بھرپور مقابلہ کیا لیکن جب وہ مارا گیا تو حملہ آور دیوار پھلانگ کر کالج کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب ملک بھر خصوصاً بلوچستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کی وجہ سے سکیورٹی کے مزید سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

حملے کے وقت ٹریننگ سینٹر سے باہر نکلنے والے ایک زیرِ تربیت اہلکار نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ساڑھے نو سے دس بجے کے درمیان شدت پسندوں نے اندر داخل ہوتے ہی اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔

وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ اس حملے کی اطلاع ملتے ہی ایف سی، پولیس اور کمانڈوز کے دستے وہاں پہنچ گئے اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔

سکیورٹی فورسز کے مطابق اب تمام حملہ آور مارے جا چکے ہیں اور علاقے کو سرچ آپریشن کے بعد کلیئر کر دیا گیا ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ نے بتایا کہ حملہ آوروں میں سے دو نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ ایک کو سکیورٹی اہلکاروں نے مار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے خلاف کارروائی چار گھنٹے میں مکمل کی گئی۔

وزارتِ داخلہ کے ذرائع نےبتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 55 زیادہ ہے جبکہ سول ہسپتال کوئٹہ کے شعبۂ ہنگامی حالات کے اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 60 تک پہنچ گئی ہے۔

تاحال کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن نے میڈیا کو بتایا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی العالمی سے تھا اور انھیں افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔

انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ ممکن ہے کہ کچھ پولیس اہلکار بھی حملہ آوروں سے ملے ہوئے ہوں۔

میجر جنرل شیر افگن نے کہا کہ سکیورٹی اداروں نے اس سے قبل حالیہ مہینوں میں کئی بار حملوں کی کوشش کی جنھیں ناکام بنا دیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ شدت پسندوں نے محرم کے موقعے پر بھی ایک بڑے حملے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم سکیورٹی اداروں نے اسے ناکام بنا دیا۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں غیر ملکی سیکورٹی ایجنسیاں ملوث ہو سکتی ہیں۔

انھوں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ یہ حملہ سکیورٹی میں کسی نقص کی وجہ سے ہوا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسی بات سامنے آئی تو اس کے بارے میں تحقیقات کی جائیں گی۔

اس واقعے کے بعد شہر کے تمام ہسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔

سول ہسپتال میں موجود سیکریٹری صحت نورالحق بلوچ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ 85 زخمی اہلکاروں کو سول ہسپتال پہنچایا گیا ہے جبکہ 25 سے زائد زخمی اہلکاروں کو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال منتقل کیا گیا۔

زخمیوں میں ایسے کئی اہلکار بھی شامل ہیں جو حملے کے وقت عمارت سے باہر چھلانگیں لگانے کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں۔

بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ثنا اللہ زہری نےبتایا کہ ’مجھے چند روز پہلے اطلاع موصول ہوئی تھی کہ کچھ دہشت گرد کوئٹہ شہر میں گھس گئے ہیں جس کے بعد پورے شہر میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا تھا۔ انھیں شہر کے اندر موقع نہیں ملا تو وہ شہر سے باہر تربیتی مرکز تک پہنچ گئے۔‘

سکیورٹی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’یہ تربیتی مرکز خاصے بڑے علاقے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا رقبہ دو ڈھائی سو ایکڑ ہے۔ یہ شہر سے 15 کلومیٹر دور ہے اور وہاں رات کے وقت اور سردیوں کے موسم کا فائدہ اٹھا کر کوئی بھی گھس سکتا ہے۔‘

امریکہ نے کوئٹہ کے پولیس ٹرینگ سینٹر پر شدت پسندوں کے حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ مشکل کے اس وقت میں وہ پاکستان کی عوام اور حکومت کے ساتھ ہیں۔

پاکستان میں ماضی میں بھی پولیس کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مارچ سنہ 2009 میں لاہور کے نزدیک مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز پر شدت پسندوں کے حملے میں آٹھ پولیس اہلکار ہلاک اور سو کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close