اسلام آباد

نوازشریف کی پارٹی صدارت کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے منظور

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عوامی نمائندگی ایکٹ 2017ء کے تحت نااہل شخص کی پارٹی صدارت کے خلاف درخواستیں سماعت کیلیے منظور کرتے ہوئے ایکٹ کی منظوری تک تمام تفصیلات طلب کر لیں ہیں جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف، نواز لیگ، الیکشن کمیشن، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزارت قانون سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کر دیے اور اٹارنی جنرل کو معاونت کیلیے طلب کیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل فل بینچ نے قرار دیا کہ درخواست گزاروں نے قانونی نکتہ اٹھایا کہ نااہل شخص کیسے سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے جبکہ درخواست گزاروں کا یہ بھی موقف ہے کہ مقدمہ عوامی مفاد اور بنیادی حقوق سے تعلق رکھتا ہے اور ایک نااہل شخص کا پارٹی سربراہ بننا آئین کی شق 9 اور 17 سے متصادم ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے بعد پارٹی صدارات کیلیے اہل ہونا قانونی سوال ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون بنانے کیلیے پارلیمان سپریم ادارہ ہے، ہم پارلیمان کے قانون بنانے کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتے لیکن بنیادی حقوق اور عوامی مفاد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اگر کوئی ترمیم کسی مروجہ بنیادی قانون یا آئین کی کسی شق اور بنیادی حقوق سے متصادم ہو تو عدالت پارلیمان کے منظور کردہ قانون کا جائزہ لینے کی مجاز ہے۔ ہم کو قانون کے مطابق چلنا ہے، پارلیمان کے منظور کردہ قانون کو کالعدم کرنے کا طریقہ کار کیا ہے، اس کو بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ پارلیمان بالادست ادارہ ہے اور خود بھی اس قانون کو کالعدم کرا سکتی ہے۔ سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے استدعا کی کہ عدالت مخالف فریقوں کو نوٹس جاری کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹس کیلیے وجہ ہونا چاہیے، عدالتی نظیریں پیش کریں اور مطمئن کریں کہ پارلیمان سے منظور کردہ قانون کالعدم کیا جاسکتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ آپ نے درخواست دائر کی اور ہم نوٹس جاری کر دیں، یہ اتنا آسان سوال نہیں، پارلیمان قانون سازی کیلیے سپریم باڈی ہے اور ہم نے جہانگیر ترین کیس میں بھی قرار دیا ہے کہ پارلیمان بالادست ادارہ ہے۔

درخواست گزار پارلیمان کے منظور کردہ قانون کو کالعدم کرانا چاہتے ہیں لیکن اس کا کیا طریقہ کار ہوگا، ہم کو اسے دیکھنا ہے، عدالت کو آسان نہ لیا جائے۔ حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالتی نظیریں لانے کیلیے وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک سینئر وکیل کو ہمیشہ تیار ہونا چاہیے، التوا کی درخواست شایان شان نہیں۔ درخواستیں 3 ماہ پہلے دائر ہوئیں، کم از کم 2مثالیں دیدیں۔ کچھ وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل ذوالفقار بھٹہ نے بتایاکہ عدالت نے توہین عدالت قانون میں ترمیم کالعدم کردی تھی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ ایک سے زیادہ مقدمات میں عدالت نے پارلیمان کا منظور کردہ قانون کالعدم کیا، عدالت کو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین پر جائزے کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت اور مفاد عامہ کا مقدمہ ہونے پر بھی مطمئن کرنا پڑے گا کیونکہ ہم پارلیمنٹ کے اختیار میں بلاجواز مداخلت نہیں کرسکتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کے استفسار پر کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 203 کس طرح قانون سے متصادم ہے، وکیل نے کہا کہ ایک شخص جسے سپریم کورٹ نے نااہل کر دیا ہو اور بددیانت قرار دیا ہو وہ پارٹی صدر کیسے بن سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بددیانت نہیں نااہل کہو۔ فیصلے کی رو سے وہ رکن قومی اسمبلی اور وزیر اعظم نہیں رہے، یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ سیاست نہیں کرسکتے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ سربراہ پارٹی کو کنٹرول کرتا ہے، منتخب ارکان کس طرح نااہل شخص کی ہدایات کے پابند ہو سکتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی صدر کے سرٹیفکیٹ سے منتخب ارکان رکنیت کھو سکتے ہیں، پارٹی صدر قانون سازی کو متاثر کر سکتا ہے، ارکان پارٹی صدر کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ پارٹی سربراہ کے اختیارات کو اسی جماعت کے منشور کی تناظر میں بھی دیکھنا ہوگا۔ فروغ نسیم نے پاناما فیصلے میں جسٹس اعجاز الاحسن کی آبزرویشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ایماندار آدمی کا مجھ پر حکمراں ہونا میرا بنیادی حق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نااہلی کا لفظ استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں، کیا آپ کہنا چاہتے ہیں اگر کسی شخص کی پارلیمنٹ سے رکنیت ختم ہو جائے تو گورننس کا حقدار نہیں، آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں نااہل شخص کا پارٹی سربراہ بننا آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ پارلیمنٹیرین کی فیصلہ سازی کا دارومدار پارٹی سربراہ کی ہدایات پر ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دیکھنا ہوگا اس بنیاد پر قانون کو کالعدم کیا جاسکتا ہے؟ فروغ نسیم نے کہا کہ شق 203 میں ترمیم ایک شخص کے مفاد کے لیے کی گئی ہے اور باز محمد کاکڑ کیس میں قرار دیا گیاہے کہ ایسی قانون سازی غیرآئینی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کاکڑ کیس میں ماضی کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا لیکن یہ لارجر بینچ کا فیصلہ ہے وہ تبصرہ نہیں کریں گے۔ تمام جماعتوں نے قانون کے حق میں پارلیمنٹ کے اندر ووٹ دیا حتیٰ کہ آپ کی جماعت نے بھی دیا۔ فروغ نسیم نے کہاکہ ان کی جماعت کے ایک رکن نے سینیٹ میں ووٹ دیا اور ایک ووٹ کی اکثریت سے قانون منظور ہوا۔

پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ بعد میں سینیٹ نے67 ووٹوں کے ساتھ اس قانون کے خلاف قرارداد منظور کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا ہے تو پارلیمنٹ خود اس قانون کو کالعدم قرار کیوں نہیں دے دیتی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ این آر او کیس کا فیصلہ بھی انہی بنیادوں پر کیا گیا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی سربراہ اصل حکومت چلاتے ہیں، سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی وغیرہ تو برائے نام ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پھر ہم درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔ جسٹس پارٹی کے وکیل اکرام چوہدری نے کہاکہ ان کی درخواست میں مذکورہ قانون کی شق 16 اور 202 کو بھی چیلنج کیا گیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کو کارکردگی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کا پابند کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو پارلیمنٹ کی بالادستی کیلیے ہے، اس سے الیکشن کمیشن کا اختیار تو متاثر نہیں ہوتا۔ نئی جماعتوں کی رجسٹریشن کیلیے قواعد بنانا تو اچھی بات ہے، عدالت نے ان کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی جبکہ ایک درخواست گزار راحیل کامران کی طرف سے التوا کی درخواست بھی مسترد کرتے ہوئے سماعت23جنوری تک ملتوی کردی۔ عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ اس ضمن میں دیگر متفرق درخواستوں کو بھی نمبر لگا کر23جنوری کو سماعت کیلیے مقررکیا جائے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close