اسلام آباد

2015 میں قابلِ تجدید توانائی میں ریکارڈ اضافہ

ایک تحقیق کے مطابق 2015 میں توانائی کے وسائل میں شمسی، ہوا اور پانی کے نئے منصوبوں کا سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

ری نیوایبل گلوبل سٹیٹس رپورٹ کے مطابق سال کے دوران قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری کوئلے اور تیل سے چلنے والے پلانٹس کی نسبت دو گنا ہو گئی ہے۔

اس کے علاوہ تاریخ میں پہلی بار ترقی پذیر ملکوں نے قابلِ تجدید توانائی پر ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ خرچ کیا ہے۔

دنیا بھر میں اب 80 لاکھ سے زیادہ لوگ قابلِ تجدید توانائی کی صنعت میں کام کر رہے ہیں۔

پچھلے کئی برس سے قابلِ تجدید توانائی پر کیے جانے والے خرچ میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جب کہ اس رپورٹ کے مطابق اس شعبے میں 2015 میں سب سے زیادہ ترقی ہوئی ہے۔

2015 میں دنیا بھر کے توانائی کے نظاموں میں تقریباً 147 گیگاواٹ قابلِ تجدید توانائی شامل کی گئی جو افریقہ کی مجموعی توانائی کے برابر ہے۔

چین، امریکہ، جاپان، برطانیہ اور انڈیا وہ ملک تھے جنھوں نے ’سبز توانائی‘ کا سب سے زیادہ اضافہ کیا، باوجود اس کے کہ معدنی ایندھن کی قیمتوں میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ تحقیق کے مصنفین کے مطابق قابلِ تجدید توانائی کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے۔

توانائی کے ماہرین کے ادارے رین 21 کی ایگزیکٹیو سیکریٹری کرسٹین لنز کے مطابق: ’ہم نے 147 گیگاواٹ کا اضافہ کیا ہے، جس کی بڑی مقدار ہوا اور شمسی توانائی پر مشتمل ہے۔ یہی حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ ٹیکنالوجیز معدنی ایندھن سے قیمت کے معاملے پر مقابلہ کر رہی ہیں۔

’بہت سے ملک، ادارے اور سرمایہ کار انھیں ترجیح دے رہے ہیں اور یہ بہت مثبت علامت ہے۔‘

2015 میں قابلِ تجدید توانائی پر کل سرمایہ کاری 286 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جس میں چین کا حصہ ایک تہائی ہے، جب کہ پہلی بار ترقی پذیر ملکوں نے ترقی یافتہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا

کرسٹین لنز نے کہا: ’اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قیمتیں اس قدر کم ہوئی ہیں کہ ترقی پذیر معیشتیں بھی اب قابلِ تجدید توانائی پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ ان کے ہاں توانائی کی ضروریات میں سب سے زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔‘

ملکوں کے علاوہ نجی کمپنیاں بھی اس میدان میں آ رہی ہیں۔ امریکہ میں 154 کمپنیاں سو فیصد قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

تاہم اب بھی کچھ ایسے شعبے ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ان میں ٹرانسپورٹ اور گرمی اور ٹھنڈک پہنچانے والے نظام شامل ہیں۔ تاہم تیل کی کم قیمت ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

تاہم کرسٹین لنز اس کے باوجود پر امید ہیں: ’قابلِ تجدید توانائی کی صنعت صرف ایک دو شعبوں پر منحصر نہیں ہے۔ یہ عالمی صنعت میں تبدیل ہو گئی ہے جو حوصلہ افزا بات ہے۔ ابھی اچھی چیزیں آنا باقی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close