اسلام آباد

چکن پوکس خطرناک متعددی بیماری، بچاؤ کا فقط ایک ہی طریقہ، جس سے بڑے اور بچے دونوں محفوظ رہ سکتے ہیں، آپ بھی جانیں

چکن پوکس ایک عام بیماری ہے جس کی وجہ سے جسم پر کھجلی ہوتی ہے اور لال رنگ کے لیس دار دانے بن جاتے ہیں۔ ویسے تو یہ بیماری بچوں میں عام ہے مگر بہت سے لوگوں کا زندگی کے کسی بھی حصے میں اس بیماری سے واسطہ پڑ سکتا ہے خاص طور پر جب چکن پوکس کی ویکسینیشن نہ کروائی گئی ہو۔ مدافعتی نظام میں مسائل کی صورت میں یہ بیماری حاملہ عورتوں، نومولود بچوں، بڑے بچوں اور بالغان میں مسائل کی وجہ بن سکتی ہے۔ مدافعتی نظام میں خرابی کی وجہ سے جسم میں بیماریوں سے لڑنے کی طاقت کم زور پڑجاتی ہے اور بیماریاں حملہ آور ہوجاتی ہیں۔ایک دفعہ چکن پوکس میں مبتلا ہوجانے کے بعد اس کے دوبارہ حملہ آور ہونے کے امکانات کافی کم ہوجاتے ہیں لیکن اس کا وائرس کافی دیر تک جسم میں موجود رہتا ہے اور اگر اس دوران یہ دوبارہ فعال ہو جائے تویہ ایک دردناک وائرس انفیکشن کا سبب بن جاتا ہے جس کو shingles کہتے ہیں۔
یہ بیماری واریسیلا زوسٹر کے وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری متاثرہ لوگوں کے چھیکنے،کھانسنے، اور کھانا یا پینے کی چیزیں شیئر کرنے سے پھیلتی ہے۔یہ بیماری متاثرہ شخص سے دو یا تین دنوں میں علامات ظاہر ہونے پر پھیل سکتی ہے۔ اگر آپ نے اس سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے ہوئے ہیں تو پھر آپ کو اس بیماری کے لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔چکن پوکس کی پہلی علامت 14 سے 16 دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔کچھ لوگوں میں اس کی ابتدائی علامات کے طور پر بخار ہونا، بھوک میں کمی واقع ہونا، سر میں درد ، کھانسی ہونا اورگلے میں سوزش شامل ہیں۔ چکن پوکس کے نتیجے میں جلد پر خارش اور سرخ دانے ابتدائی علامات کے ایک یا دو دن کے بعد نمودار ہوتے ہیں۔ مایع سے بھرے ہوئے دانے پانچ سے سات دن تک نکلتے رہتے ہیں۔ پھر ڈھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان ایام میں بچوں کو اسکول بھیجنے سے گریز کرنا چاہیے اور بالغ افراد کو بھی کام کاج پر جانے کے بجائے گھر میں رہنا چاہیے۔عام طور پر چند روز کے بعد ازخود چکن پوکس کے دانے مندمل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات اس اس دوران خارش اور بُخار وغیرہ کی ادویہ دیتے ہیں۔لیکن وہ لوگ جو اکثر صحت کے مسائل سے دوچار رہتے ہیں انہیں امیونوگلوبن علاج یا اینٹی وائرل ادویات کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔حفاظتی ٹیکوں کے بروقت استعمال سے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close