خیبر پختونخواہ

آرمی پبلک اسکول حملہ: پولیس تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم جاری

پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو پولیس تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم جاری کردیا۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس افسر شاہ پر مشتمل بینچ نے آرمی پبلک اسکول میں ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں کے والدین کی تنظیم کے رکن اجون خان کی درخواست پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ اجون خان نے اپنی درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت متاثرہ والدین کو اس سانحے کی تحقیقات اور اس میں پیش رفت سے آگاہ کرے اور اس سانحے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی منظرِ عام پر لایا جائے۔ درخواست گزار نے اس سانحے کی عدالتی تحقیقات کے لیے بھی عدالت سے استدعا کی تھی تاہم عدالت نے اسے یہ کہہ کر رد کردی ہے کہ تحقیقات کے لیے از خود عدالتی کمیشن کی تشکیل عدالت کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔

واضح رہے کہ خیبر پختون خوا میں انسدادِ دہشت گردی فورس پہلے ہی اس سانحے سے متعلق اپنی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرا چکی ہے۔ اجون خان کے علاوہ فضل خان ایڈوکیٹ نے بھی آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بارے میں ایک اپیل پشاور ہائی کورٹ میں دائر کر رکھی ہے جس میں انہوں نے عدالت سے گزارش کی کہ ایک متاثرہ والد کی حیثیت سے ایف آئی آر میں ان کا بیان بھی شامل کرنے کے لیے حکومت کو ہدایت کی جائے۔

لگ بھگ تین سال قبل پیش آنے والے اس سانحے میں اسکول میں زیرِ تعلیم 138 بچوں سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سانحے کے بعد حکومت نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے قومی لائحۂ عمل ترتیب دیا تھا جس کے بعد دہشت گردوں کو سزائیں دلانے کے لیے ملک میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جب کہ سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد غیر اعلانیہ پابندی بھی اٹھالی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کی صبح دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے 132 طالبِ علموں سمیت 144 افراد کو شہید کردیا تھا جبکہ سیکیورٹی اداروں کی کارروائی میں تمام دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے تھے۔خیال رہے کہ اس سانحے کے فوری بعد تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق کے ایک نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) ترتیب دیا گیا تاہم اس کے باوجود دہشت گرد ملک میں تعلیمی اداروں اور آسان اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close