سندھ

احاطہ عدالت سے فرار نہیں ہوا بلکہ سکون سے گاڑی میں بیٹھ کر گیا ،ضمیر صاف ہے اس لیے خود کو پیش کیا :عبد القادر پٹیل

کراچی : پیپلز پارٹی کے رہنما عبد القادر پٹیل نے کہا ہے کہ میں احاطہ عدالت سے فرار نہیں ہوا بلکہ وہاںکچھ دیر کھڑا ہونے کے بعد آرام سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس گیا ۔عدالت سے سیدھا ایک دوست وکیل کی گھر گیا جہاں سندھ ہائی کورٹ میں عبوری ضمانت کی درخواست دائر کرنے پر مشاورت کی ۔ان کا کہنا تھا کہ ضمیر صاف ہے اس لیے خود کو پیش کیا ،اگر فرار ہونا ہوتا تو لندن سے اس کیس میں حاضر ہونے کے لیے نہ آتا ۔
بوٹ بیسن تھانے میں گرفتاری دینے کے موقع پر میڈ یا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت میں آنے کے لیے گھر سے نکلا تو راستے میں ایک کام تھا جس کی وجہ سے 20سے 25منٹ کی تاخیر ہو گئی ،اس دوران عدالت میں میرے وکیل عبد القادری مندو خیل نے پیروی کی ۔ان کا کہنا تھا کہ جب میں عدالت میں پہنچا تو احاطے کے بیرونی دروازے کھلے ہوئے تھے جبکہ کمرہ عدالت کا دورازہ بند تھا اور اندر نہیںجانے دیا جا رہا تھا ۔انہوں نے بتا یا کہ میں 7سے 8منٹ احاطہ عدالت میں موجود رہا ،تب ہی کمرہ عدالت سے کچھ دوست آئے اور انہوں نے کہا کہ عدالت نے ضمانت منسوخ کردی ہے لہذا ہائی کورٹ میں عبوری ضمانت کی درخواست دائر کرانے کے لیے جانا ہو گا ۔عبد القادر پٹیل نے کہا کہ دوستوں کے مشورے پر بہت آرام سے احاطہ عدالت سے باہر نکلا ،اپنی گاڑی کا انتظار کیا اور پھر سکون سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ایک دوست کے گھر گیا ۔انہوں نے کہا کہ دوست کے گھر پر جا کر دیکھا کہ میڈیا پر میرے فرار ہونے سے متعلق خبریں نشر ہو رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ لندن علاج کے سلسلے میں گیا تھا لیکن اس کیس کے لیے واپس آیا ہوں ،اگر فرار ہونا ہوتا تو واپس ہی نہ آتا ۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ،میرا ضمیر صاف ہے اس لیے اپنے آپ کو پیش کردیا ہے ،سیاسی ورکرز کی زندگی میں مشکلیں آتی ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے لیے کام کرتے ہوئے بال سفید ہو گئے ،بی بی شہید کے سکھائے ہوئے طریقہ کار پر چل رہے ہیں ،عدالتوں کا احترام کرتے ہیں ۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا انہوں نے کہا کہ پارٹی لیڈر شپ سے رابطہ نہیں کیا او ر شائد پارٹی لیڈر کے شا یان شان نہیں ہے کہ مجھ جیسے کارکن سے رابطہ کریں ،میرے حلقے کے لوگ محبت کرتے ہیں ،پارٹی کا سوال پارٹی سے پوچھیں ۔انہوں نے کہا کہ پارٹی میں ہمارے بعد آنے والے رہنماﺅں کو لیڈر شپ کی طرف سے سپورٹ ملی اور وہ بڑے لیڈر بن گئے ،ایسے لیڈر بورڈ آف ڈائریکٹر سطح کے لوگ ہیں اور ہم صرف سیاسی ورکرز ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو کیس مجھ پر بنا یا گیا ہے اس پر ہنسی آتی ہے ،ڈاکٹر عاصم کی جس جے آئی ٹی میں مجھ پر الزام لگا اس کو ڈاکٹر عاصم نے خود ہی مسترد کردیا اس لیے یہ کیس سرے سے بنتا ہی نہیں ۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close