دنیا

متنازع جزیروں پر جی سیون کے بیان پر چین برہم

اس سے قبل جی سیون ممالک کے وزار نے جاپان میں ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ وہ کسی بھی ایسے ’یکطرفہ طور پر دھمکی آمیز، پر تشدد یا پھر اشتعال انگیز اقدام‘ کے مخالف ہیں جس سے خطے میں تناؤ میں اضافہ ہوتا ہو۔

امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جرمنی اور جاپان کے وزار خارجہ نے اپنے اس بیان میں چین کے نام کا ذکر نہیں کیا تھا۔

لیکن اس کے رد عمل میں چین میں وزارت خارجہ کے ترجمان لو کینگ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین کو اس زمین پر دعویٰ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

انھوں نے ان ممالک کے وزرا پر زور دیا کہ وہ تمام طرح کے ’غیر ذمہ دارانہ بیانات، غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے گریز کریں، اور خطّے میں امن اور استحکام کے لیے صحیح معنوں تعمیری کردار ادا کریں۔‘

جی سیون ممالک نے اپنے بیان میں زمین پر قبضہ کرنے اور اس پر فوجی مقاصد کے لیے چوکیاں تعمیر کرنے جیسے اقدامات سے باز رہنے کی بات کہی تھی۔

مشترکہ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ اختلافات کو ’نیک نیتی اور عالمی قوانین کے مطابق‘ حل کرنے چاہییں

کچھ عرصے میں جنوبی چین کے سمندروں میں تناؤ اس وقت بڑھ گیا تھا جب چین نے اپنے مشرقی سمندر کو فضائی دفاع کا علاقہ قرار دے دیا اور بحیرۂ جنوبی چین کے متنازع جزیروں پر زیادہ جارحانہ پالیسی اپنا لی تھی۔

چین بحیرۂ جنوبی چین کے پورے خطے پر اپنا حق جتاتا ہے جو دیگر ایشیائی ممالک ویتنام اور فلپائن کے دعووں سے متصادم ہے۔

ان ممالک کا الزام ہے کہ چین نے اس علاقے میں مصنوعی جزیرہ تیار کرنے کے لیے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اسے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ اس کا سمندر میں مصنوعی جزیرے اور اس پر تعمیرات کا مقصد شہریوں کے لیے سہولیات پیدا کرنا ہے لیکن دوسرے ممالک اس کی ان کوششوں کو فوجی مقاصد کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close