دنیا

اوباما برطانیہ کے یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حامی

امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کا حصہ رہ کر دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔

برطانیہ کے اپنے دورے کے موقع پر صدر اوباما نے اخبار ٹیلی گراف کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں ان امور پر کھل کر تبادلہ خیال کیا ہے۔

وہ جمعرات کو رات دیرگئے برطانیہ کے تین روزہ دورے پر لندن پہنچے۔

اپنے مضمون میں صدر اوبا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ بالآخر برطانوی عوام کو ہی کرنا ہے جو اپنے حق رائے دہی سے فیصلہ کریں گے۔

لیکن انھوں نے لکھا ہے کہ اس کا جو بھی نتیجہ نکلے گا اس میں امریکہ کو بھی کافی گہری دلچسپی ہے۔

انہوں نے لکھا ہے: ’دسیوں ہزار امریکی جو یورپ کے قبرستانوں میں ابدی نیند سورہے ہیں وہ اس بات کے خاموش گواہ ہیں کہ حقیقی معنوں میں ہماری خوشحالی اور سکیورٹی ایک دوسرے کے ساتھ کس قدر مربوط ہے۔ اور جس راستے کا آپ اب انتخاب کریں گے اس کی بازگشت امریکہ کی موجودہ نسل کے مستقبل کے امکانات میں بھی سنی جائے گی۔

صدر اوباما نے لکھا ہے: ’یورپی یونین برطانوی اثر و رسوخ کو کم نہیں کرتی بلکہ اس کو عظمت بخشتی ہے۔ ایک مضبوط یورپ برطانیہ کی عالمی قیادت کے لیے خطرہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر اس کی قیادت کو جلا بخشتا ہے۔‘

اوباما نے کہا ہے کہ یورپی یونین میں رہتے ہوئے برطانیہ روزگار، تجارت اور معاشی ترقی کے لحاظ سے مستفید ہوا ہے۔

اپنے مضمون میں وہ کہتے ہیں: ’اس طرح کا تعاون، انٹیلجینس شیئرنگ، انسداد دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور روزگار پیدا کرنے سے لے کر معاشی ترقی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ معاہدوں کا ہونا، اگر پورے یورپ میں اس طرح کے تعاون کو وسیع کر دیا جائے تو یہ اور زیادہ موثر ثابت ہوگا۔ یہی وہ وقت ہے جب دوستوں اور اتحادیوں کو ایک ساتھ رہنا چاہیے۔‘

لیکن بعض افراد نے اوباما کے اس موقف پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ اخبار سن میں بورس جانسن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ یہ ’جو میں کہتا ہوں وہ کرو لیکن وہ نہ کرو جو میں کرتا ہوں‘ کے اصول کی بہت واضح مثال ہے۔

23 جون کو برطانیہ میں اس بات پر ریفرنڈم ہونے والا ہے جس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ برطانوی عوام یورپی یونین میں رہنا چاہتے ہیں کہ نہیں اور اس مسئلے پر صدر اوباما کے موقف کے حوالے سے کافی بحث ہوتی رہی ہے۔

جو افراد یونین سے نکلنے کی حمایت کرتے ہیں وہ اوباما کے اس موقف کو منافقانہ رویہ قرار دیتے رہے ہیں۔

جانسن نے بھی صدر اوباما کے موقف کو غیر مستقل اور منافقانہ بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’خود امریکی کبھی اپنے علاقے یا پھر پڑوس میں یورپی یونین کی طرز پر اپنے لیے کچھ بھی کرنے پر غور تک نہیں گریں گے۔ تو پھر وہ ہمارے لیے اسے بہتر کیوں مانتے ہیں؟‘

کنزرویٹیو پارٹی کے بعض ارکان پارلیمان نے بھی اوباما کے موقف سے عدم اتفاقی کا اظہار کیا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close