دنیا

ہم ہلیری سے پیچھے ہیں لیکن ہمت نہیں ہارے ہیں

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی منیجر کلیانے کونوے نے کہا ہے کہ ‘ہم پیچھے ہیں، ہلیری کلنٹن کو بعض معاملات میں سبقت حاصل ہے، تاہم ہم ہمت ہارنے والے نہیں۔ ہمیں یہ علم ہے کہ ہم جیت سکتے ہیں۔’

جمعے کو ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ ہار بھی سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ ‘جیت، ہار یا برابری’ کچھ بھی ہو وہ خود سے خوش ہیں۔

تازہ انتخابی سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہلیری کلنٹن ملکی سطح پر اور کئی اہم ریاستوں میں بہت آگے ہیں۔

ان کی انتخابی مہم نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ ‘امریکی تاریخ کا سب سے بڑا انتخاب’ ہو گا۔

ان کی انتخابی مہم کے منیجر روبی موک نے فوکس نیوز کو بتایا: ‘اس بار پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ افراد ووٹ ڈالنے آئیں گے۔’

رپبلکن کا گڑھ کہلائی جانے والی ریاستوں اوٹاہ اور ایریزونا میں ہونے والے سروے سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ کئی برسوں میں پہلی بار یہاں سے کسی ڈیموکریٹ کی حمایت ہوگی۔

ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر رچرڈ ہیریرا نے کہا: ‘ریاست کی آبادی میں تبدیلی جاری ہے اور اگر لاطینی ووٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ضرور ہوگا کیونکہ وہاں پارٹی میں ریجسٹر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو ایسے میں آنے والے انتخابات میں یہاں مقابلہ کانٹے کا ہو گا۔’

اگر یہ ڈیموکریٹس کے لیے کسی سنہرے خواب سے کم نہیں تو رپبلکن کے لیے یہ طویل مدتی خوفناک سیاسی خواب ہوگا۔

مسٹر ٹرمپ کی مہم کی مینیجر نے کہا کہ مسز کلنٹن کی ٹیم کو بڑی مالی سبقت حاصل ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف منفی اشتہارات اور بڑے بڑے کمپینرز پر بہت خرچ کر سکتی ہیں۔

‘ان کے ساتھ ایک سابق صدر ہیں جو ان کے شوہر ہیں اور وہ ان کی مہم میں شریک ہیں۔ رواں صدر اور خاتون اول اور پھر نائب صدر سب ان کی امید سے کہیں زیادہ مقبول ہیں۔’

تاہم انھوں نے کہا کہ جب آپ ڈونلڈ ٹرمپ کو حاصل حمایت کی گہرائی پر غور کرتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ابھی یہ انتخاب ختم نہیں ہوا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سنیچر کو صدر منتخب ہونے کی صورت میں اپنے 100 دن کے بارے میں اعلان کیا تھا جس میں لابی بنانے والوں پر قدغن لگانے سمیت نئی تجارتی اور ماحولیاتی تبدیلی کی بات چیت شامل تھی۔

اب ووٹ ڈالنے میں صرف 16 دن بچے ہیں اور انھیں تنازعات کا سامنا ہے۔ سنیچر کو انھوں نے کہا تھا کہ وہ ہر اس خاتون کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے جنھوں نے ان کے خلاف جنسی طور پر حراساں کرنے کا الزام لگایا ہے۔

انھوں نے ایک بار پھر ووٹر کے فراڈ اور میڈیا کے تعصب کو جواز کے طور پر پیش کرتے ہوئے انتخاب میں دھاندلی کی بات دہرائی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close