دنیا

سعودیہ زوال کی طرف بڑھ رہا ہے

شاہ عبد اللہ کے مشیر اور سعودی اقتصاد کے معمار نے چند دنوں پہلے سعودی عرب کی معاشی حالت کا جائزہ پیش کیا تھا جسے سعودی میڈیا نے سینسر کردیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘سعودی عرب نابودی کی طرف بڑھ رہا ہے’۔

چند دنوں پہلے سعودی عرب کی وزارت ثقافت نے ہافنگٹن پوسٹ کی ویب سائٹ کو بلاک کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے مذکورہ ویب سائٹ سعودی صارفین کی پہنچ سے باہر ہوگئی تھی۔

اس بارے میں ٹویٹر پہ اپلوڈ کی گئی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی صارفین امریکی ویب سائٹ ہافنگٹن پوسٹ کو کھولنا چاہ رہے تھے مگر سعودی وزارت ثقافت کا ایک پیغام آرہا تھا کہ اس پیج نے وزارت ثقافت کی قانون شکنی کی ہے۔ صارفین سے کہا جارہا تھا اگر ان کی نظر میں غیرضروری طور پر یہ صفحہ بلاک ہوگیا ہے تو وہ وزارتخانے سے رابطہ کریں تاکہ اسے دوبارہ بحال کردیا جائے۔

روزنامہ ہافنگٹن پوسٹ نے سعودی وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور امریکہ میں رہائش پذیر ماہر اقتصاد حسین عسکری کا ایک کالم شائع کیا تھا۔ جس کا عنوان تھا ‘لاسٹ ٹینگو ان ریاض’۔ انہوں نے لکھا تھا کہ سعودی عرب تیل پر حد سے زیادہ انحصار اور سیاسی شکستوں کی وجہ سے نابودی کے دہانے پر ہہنچ گیا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ سعودی عرب کے نائب ولیعہد محمدبن سلمان کی سعودی وژن 2030 کی وجہ سے تحسین ہونی چاہئے مگر اس کے باوجود سعودی عرب کو نابودی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

عسکری نے حیرت انگیز پیشنگوئی کرتے ہوئے لکھا کہ اگر سعودی عرب کا دیوالیہ نکلا تو مغربی ممالک بھی اسے بچانے نہیں آئیں گے۔

انہوں نے اپنی تحریر میں سوال کیا کہ جب سعودی عرب کا زوال نزدیک ہوگا تو کیا امریکہ اور برطانیہ اپنے اتحادی ملک کو نجات دلائیں؟۔ ہمارا جواب منفی ہے۔ مغربی ممالک کا دکھاوا اور ان کی دھوکہ دہی سبھی کے نزدیک واضح ہے۔ جب سعودی حکّام کو اپنا زوال قریب دکھےگا تو وہ اس سے نبردآزما نہیں ہوپائیں گے کیونکہ اب ان کے پاس اندرونی اختلافات کو جھیلنے کی طاقت نہیں ہے، بالخصوص ایسے حالات میں کہ جس میں تیل کی اب ماضی جیسی اہمیت نہیں رہ گئی۔

سعودی عرب میں اس وقت 20 ملین انٹرنیٹ صارفین موجود ہیں مگر اس کے باوجود میڈیا کی آزادی کے تعلق سے اس ملک میں بہت سخت قوانین ہیں۔ رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے دنیا کے 180 ممالک میں سعودی عرب کا 165واں نمبر ہے۔

2014 میں رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز نے سعودی عرب کو انٹرنیٹ مواد بلاک کرنے میں سرفہرست قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا خود سعودی حکّام اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے چار لاکھ ویب سائٹس کو بلاک کررکھا ہے۔

سعودی عرب میں بلاگرز کو فوراً جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے نمایاں نام رائف بدوی کا ہے کہ جنہیں 2013 میں توہین اسلام کے جرم میں سات سال جیل اور 1000 کوڑے کی سزا سنائی گئی تھی۔

پروفیسر حسین عسکری نے سعودی عرب میں اپنے کالم کے سینسر اور ہافنگٹن پوسٹ کی ویب سائٹ کے بلاک کئے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: میرے خیال میں سعودی حکّام کی جانب سے میرے مضمون کو سینسر کرنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ سعودی حکّام کے لیے یہ بات بہت ہی تشویشناک ہے کہ ایک ایسا شخص جو ایک عرصے تک ان سے قریب رہا ہے اب وہ ان پر تنقید کررہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: آل یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح پیشنگوئیاں غیرملکی سیاستدانوں اور تاجروں کی توجہ کا سبب بنےگی جس کی وجہ سے سعودی عرب کی ساکھ خراب ہوسکتی ہے۔

سعودی وزارت خزانہ کے سابق مشیر حسین عسکری نے مزید کہا: مضمون میں خاندان آل سعود کی بدعنوانی اور عیّاشی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو یقیناً شاہی خاندان کے افراد کے لیے فکرمندی کا باعث بنےگی۔ مضمون میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ شاہ سلمان اپنی فرمانروائی میں جانبداری سے کام لیتے ہیں۔ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہزاروں شہزادوں پر ترجیح دیتے ہیں جب کہ خاندان میں دیگر عالی مرتبہ شہزادے موجود ہیں۔

حیسن عکسری نے مزید بتایا: میں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ سعودی عرب کی معاشی منصوبے شکست سے دوچار ہوگی مگر یہ کہ وہ اپنی سیاست میں بھی تبدیلی لائیں۔ لیکن یہ ناممکن ہے کیونکہ آل سعود حکومت کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close