دنیا

مال بردار ٹرین چین سے14 دنوں میں ایران پہنچی

ایران اور چین کی میڈیا کے مطابق ایک مال بردار ٹرین پیر کے روز چین سے تہران پہنچی ہے۔

ایران پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد اسے ایران کے ساتھ تجارت کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

نیوز ایجنسی  کے مطابق 32 کنٹینروں پر مشتمل یہ مال بردار ٹرین چین کے شمالی شہر ییوو سے چل کر 14 دنوں کے بعد ایران پہنچی۔ اس نے 10399 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہے۔

بہر حال نیوز ایجنسی میں یا بات نہیں بتائی گئی ہے کہ ٹرین پر کیا سامان لدا ہوا تھا۔

یہ ٹرین قزاقستان اور ترکمانستان کے راستے ایران پہنچی ہے۔

چین کی نیوز ایجنسی نے ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ اور ریلویے کے سربراہ محسن پور آقائی کے حوالے سے کہا ہے کہ بحری جہاز کو عام طور پر شنگھائی سے ایران کے بندرگاہ بندر عباس آنے میں ڈیڑھ ماہ کی مدت لگتی تھی اور ٹرین کے اس راستے کے ذریعے یہ سفر 30 دن کم ہو گيا ہے۔

چین بین الاقوامی پابندیوں کے ہٹائے جانے کے بعد سے ایران کے ساتھ بہت قریبی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے اور بیجنگ ’ون بیلٹ ون روڈ‘ یعنی ایک خطہ ایک راستہ کی پالیسی کے تحت ایران کو اہم ملک تصور کرتا ہے جہاں وہ اپنی ملکی معیشت اور اپنی کمپنیوں کے لیے نیا منڈی دیکھتا ہے۔

چین کی پالیسی کا اہم حصہ چین سے یورپ کے لیے ریل راستے کی توسیع ہے تاکہ وہ اپنے مال کو پہنچانے کے وقت میں کمی لا سکے اور ایک ’نئی شاہراہِ ریشم‘ تیار کر سکے۔

 ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ اب چین سے ہر ماہ ایران کے لیے ایک ٹرین چلائی جائے گي۔ یہ ٹرین ایران ہوکر بالآخر یورپ جائے گی اور اس طرح ایران چین اور یورپ کے درمیان ایک اہم ٹرانزٹ مرکز کے طور پر ابھرے گا۔

 ایران میں چین کے سفیر پینگ سین کا بیان نقل کرتے ہوئے کہا اس راستے پر پڑنے والے ممالک اس راستے کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائیں گے تاکہ یہ راستہ مزید بہتر اور تیز رفتار ہو سکے۔

جنوری میں چین کے صدر شی جن پنگ کے ایران دورے میں دونوں ممالک نے آنے والی ایک دہائی میں 600 ارب ڈالر کی تجارت اور جوہری توانائی میں تعاون کا دوطرفہ سمجھوتہ کیا تھا۔

نیوز ایجنسی کے مطابق دونوں ممالک تہران سے ایران کے شمال مشرقی مقدس شہر مشہد کے درمیان تیز رفتار ٹرین کے پروجیکٹ میں تعاون کر رہے ہیں۔

ایجنسی نے ایران کے صدر حسن روحانی کا بیان نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو ارب ڈالر کا یہ پروجیکٹ 42 مہینوں میں مکمل ہوگا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close