بلاگ

کاش! ہم ذرا پہلے پہنچ جاتے…

یوسف عبدالخیر

’صبح ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ میں اسی وقت ڈیوٹی پر پہنچا تھا۔ ہیلپ لائن پر ایک ایمرجنسی کال موصول ہوئی۔ دوسری جانب ایک خاتون تھیں جو گڑگڑاتے ہوئے جلد از جلد ایمبولینس لے کر آنے کی درخواست کررہی تھیں۔ میں نے فوراً ایمبولینس نکالی اور ہوٹر آن کرکے، پوری رفتار سے خاتون کے بتائے ہوئے پتے پر جا پہنچا، جہاں ایک دلخراش منظر میری نظروں کے سامنے تھا۔ ایک خاتون اپنی بچی کو گود میں اٹھائے زار و قطار رو رہی تھیں۔ اسکول یونیفارم میں ملبوس، اس بچی کے سر سے خون فوارے کی طرح اُبل رہا تھا اور اس کے سفید کپڑے، خون سے سرخ ہوچکے تھے۔ میں نے پھرتی سے اس بچی کو خاتون سے لیا اور دونوں ماں بیٹی کو ایمبولینس میں سوار کرلیا اور اسپتال کےلیے روانہ ہوگیا۔‘‘

’’میں ایمبولینس کو لے کر روڈ پر آیا تو ٹریفک کا ازدحام نظر آیا۔ میں نے ایمرجنسی ہوٹر آن کیا اور ساتھ ہی احتیاطاً ہارن بھی بجانے لگا۔ مجھے اچانک احساس ہوا کہ سائرن اور ہارن، دونوں ہی بے سود جارہے ہیں۔ تب میں نے آخری حربے کے طور پر ایمبولینس میں نصب مائیکروفون سسٹم آن کیا اور تقریباً چلاتے ہوئے کہنے لگا کہ ایمرجنسی ہے، برائے مہربانی ایمبولینس کو راستہ دیجئے۔ ساتھ ہی ساتھ میں مستقل ’موو! موو!‘ کی صدائیں بھی لگاتا جارہا تھا… لیکن اس کے باوجود کوئی ایمبولینس کےلیے راستہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے لوگوں کا اپنے آفس اور کاروبار پر پہنچنا اس بچی کے اسپتال پہنچنے اور جان بچانے سے زیادہ ضروری ہو۔ باہر ٹریفک کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا اور اندر بچی کی نبض ڈوبتی چلی جارہی تھی۔ جہاں بچی کی ماں کا دل بیٹھا جارہا تھا وہیں مجھے بھی اپنا خون منجمد ہوتا محسوس ہورہا تھا۔ بہرحال، جیسے تیسے کرکے ہم اسپتال پہنچ ہی گئے۔ میری ڈیوٹی انہیں وہاں تک پہنچا کر واپس اپنے بوتھ پر پلٹ آنا تھا لیکن معصوم بچی سے فطری انسیت نے مجھے آگے بڑھنے پر مجبور کردیا۔ میں نے گاڑی سائیڈ میں لگائی اور بچی کو اٹھائے ایمرجنسی وارڈ کی طرف بھاگا۔ ہمیں بھاگم بھاگ دیکھ کر وارڈ میں موجود پیرامیڈکس اسٹاف اور ڈاکٹرز پہلے ہی متوجہ ہوچکے تھے۔ بچی کو فوراً بیڈ پر ڈال کر ڈاکٹر نے جیسے ہی بچی کی نبض ہاتھ میں لی، چند ہی لمحوں میں مایوسی کی ایک لہر ان کے چہرے پر نمودار ہوئی اور انہوں نے تھکے ہوئے لہجے میں بچی کی ماں سے کہا: ’سوری، آپ لوگوں نے بچی کو اسپتال لانے میں تاخیر کر دی، اگر ذرا پہلے لے آتے تو شاید جان بچائی جاسکتی تھی‘۔‘‘

یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں بلکہ ایک ایمولینس ڈرائیور کی آپ بیتی ہے جو اُس نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں حائل مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کی۔ لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایسے لاتعداد واقعات ہیں جو ایمبولینس ڈرائیوروں کے ذہنوں پر گویا کسی تیزاب سے نقش ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر تو ایمبولینس کو راستہ دینے کی روایت موجود ہے مگر اکثر اوقات ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس شور مچاتی رہ جاتی ہے لیکن آگے والی گاڑیاں اسے راستہ نہیں دے رہی ہوتیں؛ اور ایسا اکثر وہ جانتے بوجھتے ہوئے کرتی ہیں۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک صورتحال ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایمبولینس کوئی عام گاڑی نہیں بلکہ اس کا مقصد زندگی بچانا ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہوسکتا ہے پیچھے آنے والی ایمبولینس میں ہمارا کوئی اپنا کوئی ہو جو موت اور زندگی کی کشمکش میں ہو؛ اور اس کا فوری اسپتال پہنچنا ضروری ہو۔
ویسے تو ترقی یافتہ ممالک میں شاہراہوں پر ایمبولینس گزرنے کےلیے علیحدہ ٹریک ہوتا ہے۔ چاہے کتنا ہی ٹریفک کیوں نہ جام ہوجائے، اس ٹریک پر کوئی وی وی آئی پی بھی سفر نہیں کرسکتا، وہ ٹریک صرف اور صرف ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کےلیے مختص ہوتا ہے۔ لیکن مہذب قومیں علیحدہ ٹریک نہ ہونے کے باوجود بھی ایمبولینس کےلیے راستہ بنانا اپنا اخلاقی فرض سمجھتی ہیں۔ ویسے بھی یہ کوئی جوئے شیر لانے جیسا عمل تو ہے نہیں کہ جس کےلیے کوئی زحمت اٹھانی پڑے، بس ذرا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر میں ایمبولینس کا راستہ دانستہ روکنا قابل تعزیر جرم ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس پر جرمانہ ہے لیکن بہت معمولی؛ اور اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا جس کی وجہ سے اس عمل کے ارتکاب میں بے حس لوگوں کی بے باکی مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگر ٹریفک سارجنٹس موقعے پر ہی ایمبولینس کو راستہ نہ دینے والی گاڑیوں کا چالان کریں تو امید ہے ایمبولینسوں کی دشواریاں کم ہوجائیں اور آسانی سے سڑکوں پر حرکت کرسکیں۔

یہاں ایک اور پہلو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایمبولینس جیسے حساس شعبے کی حساسیت کم کرنے میں بعض ایمبولینس نیٹ ورکس اور ڈرائیورز خود ملوث پائے جاتے ہیں، کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ ویلفیئر آرگنائزیشنز اور این جی اوز اپنی ہیلتھ کیئر کی ڈیوٹی چھوڑ کر ایمبولینس میں اسپیکر لگا کر، ریکارڈنگ بجا کر چندے جمع کررہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح بعض ایمبولینس ڈرائیورز خالی گاڑی میں خواہ مخواہ سائرن بجاتے اور گاڑی کو دائیں بائیں لہراتے گھومتے پھرتے ہیں، لوگ ایمرجنسی سمجھ کر راستہ دینے کےلیے اپنی گاڑیاں دوسری گاڑیوں سے ٹکرا دیتے ہیں لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ ایمرجنسی کوئی نہیں، ایمبولینس ڈرائیور صاحب یونہی مٹر گشتیاں کرتے پھر رہے تھے۔ ایسے ایمبولینس نیٹ ورکس اور ڈرائیورز کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جو اس حساس شعبے کی حساسیت کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔

ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے ہم میں سے ہر فرد کو سڑک پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انسانی جان بچانے والی ایمبولینسوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے گزرنے کا موقع ملے۔ یہ صرف پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام نہیں بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم یہ بنیادی انسانی فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام نہیں دے پائے تو کبھی مہذب اور ترقی یافتہ قوم کہلانے کے لائق نہیں ہوسکیں گے؛ کیونکہ اُس قوم کی اخلاقی گراوٹ کا کیا حال ہوگا جسے ایمبولینس کو راستہ دینے کے لیے بھی آگہی مہم چلانے کی ضرورت پڑے۔

اور پھر کسی ماں کو اپنے لختِ جگر کا لاشہ ہاتھوں میں تھامے یہ نہیں سوچنا پڑے گا کہ کاش!… ہم ذرا دیر پہلے پہنچ جاتے۔

پس تحریر: ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی ’’ایمبولینس کو راستہ دو‘‘ کے عنوان سے مہم چلا رہی ہے۔ اس ضمن میں ہفتے کے روز کراچی میں ’’بلاگرز میٹ اپ‘‘ رکھا گیا جہاں سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کے لکھاریوں سے مہم میں اپنی جانب سے تعاون کے طور پر یہ چند سطریں ضبطِ تحریر میں لانا اپنا اخلاقی فریضہ اور ذمہ داری سمجھا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close