بلاگ

بنارس میں ’موت کے فوٹوگرافر‘

دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک وارانسی یعنی بنارس کو ہندوؤں کا مذہبی دارالحکومت بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں سے گزرنے والے دریا گنگا کے کنارے بنے گھاٹوں کو مقدس تصور کیا جاتا ہےچند لوگوں سے ملاقات ہوئی جو خود کو ’موت کا فوٹوگرافر‘ کہتے ہیں۔وارانسی میں بہت سےگھاٹ ہیں جہاں ملک بھر سے لوگ پوجا کرنے اور دریائے گنگا میں غسل کرنے آتے ہیں۔

لیکن ان میں سے دو گھاٹ میتوں کو نذر آتش کرنے یا آخری رسومات ادا کرنے کے لیے مخصوص ہیں۔ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ جس شخص کی آخری رسومات یہاں ادا کی جاتی ہیں وہ دوسرے جنم اور موت کے چکر سے آزاد ہو جاتا ہے۔زیادہ تر گھاٹوں تک تنگ راستے اور گلیوں کی ایک بھول بھلیاں جاتی ہیں جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ شہر تاریخ کے کسی حصے میں منجمد ہو کر رہ گيا ہےانہی گلیوں میں موت کے مصور (فوٹوگرافر) اپنے عارضی سٹوڈیو چلاتے ہیںہت سے لوگ ان فوٹوگرافروں سے میت کے ساتھ ایک آخری تصویر لینے کی فرمائش کرتے ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ یادگار لمحے کی حیثیت رکھتا ہے تو بعض کے لیے موت کی سند یا سرکاری شواہد کی حیثیتندر کمار جھا اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تقریباً ایک دہائی سے منیكرنكا گھاٹ پر بطور فوٹوگرافر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’مجھے اب بھی اپنے ابتدائی دن یاد ہیں۔ وہ بہت آسان دن نہیں تھے لیکن اب میں پرسکون ہوں اور اسے کسی دوسرے کام کی طرح ہی دیکھتا ہوں۔ اگر ایک آخری تصویر کسی غمزدہ خاندان کو تھوڑی تسلی دے سکے تو میں اطمینان محسوس کرتا ہوں۔‘

اندر جھا وارانسی کی ایک گلی میں رہتے ہیں اور روزانہ گھاٹ پر جاتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ ایک دن میں 12 سے 15 گھنٹے تک مرنے والوں کی تصاویر کھینچتے ہیں۔

وہ دوپہر کو کھانے کے لیے گھر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ کام آسان نہیں ہے۔ مجھے اپنے کام سے تھوڑی دیر کی فرصت چاہیے کیونکہ جلتی ہوئي لاش کی بو آپ کو پاگل بنا سکتی ہے۔اندر کمار تصویر لینے کے لیے ایک چھوٹے ڈیجیٹل کیمرے کا استعمال کرتے ہیں اور پاس ہی موجود ایک دوکان میں تصویریں پرنٹ کراتے ہیںوہ دو تصاویر کے لیے دوسو روپے لیتے ہیں۔ لیکن کسی کسی میت کے لیے وہ یا دوسرے فوٹوگرافر کوئی پیسے نہیں لیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں جب بھی کسی بچے یا نوجوان کی تصویر لینے کے لیے کہا جاتا ہے تو ہم اس کی قیمت نہیں لیتے۔ یہ غیر تحریر شدہ ضابطہ ہے اور ہم سوگوار اہل خانہ کے ساتھ اسی طرح اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔‘جھا کے مطابق پہلے وہ ایک دن میں تین سے پانچ ہزار تک کما لیتے تھے لیکن موبائل فون آنے سے ان کا کام متاثر ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب دن میں ایک ہزار روپے کمانا بھی بڑی بات ہے۔لیکن بعض ایسے فوٹوگرافر بھی ہیں جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے رشتے دار ان کے اس کام کے بارے میں جانیں۔ کوشل کمار اور دو دوسرے فوٹوگرافروں کا یہ خیال ہے کہ ’یہ کوئی ایسا کام نہیں جس کے بارے میں لوگ باتیں کریں۔‘ ان میں سے ایک نے کہا ’میں ایک نہ ایک دن یہ کام چھوڑ دوں گا اور شادیوں کی فوٹوگرافی میں تربیت حاصل کرکے بہت پیسے کماؤں گا۔‘نھوں نے کہا: میں ساری زندگی لاشوں، سوگ میں ڈوبے ہوئے کنبوں، دکھ اور آنسوؤں کے درمیان نہیں گزارنا چاہتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close