بلاگ

یہاں بیف کے لیے ہندو مسلم بھائی بھائی ہیں

دوپہر کے ڈھائی بج چکے ہیں اور بھوک مجھے بے بس کیے دے رہی ہے کیونکہ صبح ناشتے میں صرف ایک ہی سیب کھایا تھا۔

انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں اسمبلی انتخابات کے کوریج کے چکر میں گذشتہ کئی دنوں سے اڈلی، ڈوسے اور اتتپم پر گزارا کر نے کے بعد اب مجھے اپنا ذائقہ بھی بدلنا تھا۔

ٹیکسی ایسے علاقے سے گزری جہاں کھڑے مصالحے اور شوربے والے کھانوں کی خوشبو ہوا میں گھل رہی تھی۔

اب جب بھوک ستانے لگی تو میں نے گاڑی رکوا کر سب سے پہلی دکان میں داخل ہوتے ہی کھانے کا آرڈر دے دیا۔

بڑی سے دیگ میں بریانی فروخت کی جا رہی ہے اور نیچے بینر پر 40 روپے پلیٹ لکھا تھا۔

مجھے پتہ ہے کہ یہ بیف بریانی ہی ہو سکتی ہے، کیونکہ اتنی کم قیمت پر کوئی دکاندار مٹن بریانی دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ویسے بھی شمالی ہند کے معروف شہر لکھنؤ میں پرورش پانے کے سبب بڑے کی بریانی اور بڑے کے کباب سے بہت سابقہ رہا ہے۔

سکول کے دنوں میں ’بڑے‘ کا ہی سہارا تھا کیونکہ جیب خرچ میں دسترخوان توسجا نہیں سکتے تھے۔

اب چینئی واپس آتے ہیں جہاں بیف بریانی ملنے پر میں اس پر ٹوٹ تو پڑا لیکن میرا دھیان کہیں اور تھا۔

اور مجھے یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کہ یہاں بیف بریانی کھانے یا پیک کرانے والوں میں ہندو مسلمان دونوں ہیں۔

ابھی تو بھوک مٹانی تھی اس لیے توجہ کھانے پر ہی تھی اور پوچھ گچھ نہیں کی لیکن دو کلومیٹر بعد دوبارہ بیف بریانی کے بورڈ نظر آنے لگے تو ٹرپليكین محلے کی ایک دکان پر گاڑی سے اتر گئے۔

رحمت بیف بریانی کے مالک احتشام نے کہا، ’50 روپے پلیٹ ہے اور چاول کی کوالٹی بھی اچھی ہے۔ دن میں 80-100 کلو فروخت ہو جاتی ہے اور علاقے کے ہندو، مسلمان اور عیسائی ہمارے یہاں بیف کھانے آتے ہیں۔ میرے تمام ہندو دوست ہیں، جن کے گھر روز کے ایک ڈیڑھ کلو پیک ہو کر بھی جاتی ہے۔

تمل ناڈو ریاست کے تقریبا ہر شہر میں ایسے علاقے ہیں، جہاں بیف اور اس سے تیار ہونے والے مختلف قسم کے خوان ملتے ہیں اور ریاست میں اگر مٹن 500 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے تو بیف کی قیمت 240 روپے ہے۔

ایک دوسرے علاقے پريمیٹ میں تین دوستوں سشیل، رام كمار اور کشور سے ملاقات ہوئی، جو شمال مشرقی ریاست آسام اور مغربی بنگال سے چار سال قبل چینئی آئے تھے۔
بیف بریانی کے مزے لے کر کام پر جانے والے سشیل نے بتایا، ’40-50 روپے میں نان ویج کھانے کو ملتا ہے اور صاف ستھرا۔ اچھی بات یہی ہے کہ یہاں بیف کے نام پر کوئی آپ کو حیرت سے نہیں دیکھتا۔

چینئی کے جام بازار علاقے میں بھی بیف بریانی کی تقریبا تمام دکانیں کھچا کھچ بھری نظر آئیں اور بعض دکانوں میں تو بیف کے بوٹی کباب بھی مل رہے تھے۔

چنئی بیف بریانی کے مالک امیر نے بتایا کہ تمل ناڈو میں ’بیف مطلب بیف ہے، گائے کا گوشت نہیں۔‘

انھوں نے کہا ’دیکھیے بیف میں پروٹین ہوتا ہے اور یہ سستا بھی ہے۔ عام لوگ چاہے وہ ہندو ہوں، مسلمان ہوں یا کوئی اور، اس سے سب کا پیٹ بھی بھرتا ہے اور غذائیت بھی ملتی ہے۔ یہی اس کے مقبول ہونے کا راز ہے۔‘

مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ دارالحکومت دہلی سے قریب اتر پردیش کے دادری میں سنہ 2015 میں مبینہ طور پر گائے کا گوشت رکھنے پر ہونے والے قتل اور اس کے بعد کی سیاست کا چینئی پر شاید ہی کوئی اثر پڑا ہو۔
دادری کے واقعے اور دوسری ریاستوں میں بیف پر ہونے والی سیاست کے مد نظر کئی تنظیموں نے ایک دن کا بیف فیسٹیول منعقد کیا اور مدراس ہائی کورٹ میں وکلا نے اس قتل کی مخالفت میں بیف کھایا اور تقسیم کیا۔‘

میں بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ سکول کے دنوں میں ہفتے میں کم از کم ایک بار، بڑے کا کباب کھانے کے بعد کبھی یہ نہیں سوچا کہ کوئی کیا کہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close