بلاگ

لاپتہ افراد کی بازیابی کم

واحد بلوچ 22 جولائی کو سپر ہائی وے پر واقع ملیر لنک روڈ سے لاپتہ ہوگئے تھے۔ ان کے ساتھ موجود دوست نے اہل خانہ کو بتایا کہ انھیں ڈبل کیبن گاڑی میں سوار لوگ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

واحد کی بیٹی ہانی بلوچ نےکہا کہ ’ہم تین بار تھانے گئے لیکن پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد ہم نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی جہاں ایس ایچ او نے آ کر کہا کہ یہ خاندان کبھی تھانے نہیں آیا جبکہ رینجرز اور دیگر اداروں نے واحد کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔‘

واحد بلوچ سول ہسپتال میں ملازمت کے علاوہ ادبی رسائل اور کتابوں کی اشاعت سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ وہ ملیر میں ہاشمی لائبریری کی نگرانوں میں سے بھی ایک ہیں۔ پریس کلب میں انسانی حقوق کی بلوچ تنظیموں کے احتجاج میں شرکت بھی ان کا ایک معمول رہا ہے۔

ہانی واحد کا کہنا ہے کہ ان کے والد لائبریری کے لیے کتابیں لیتے تھے اور خود بھی کتابوں کا شوق رکھتے تھے تو کیا یہ جرم ہے۔ ’وہ شاعر جن کی کتابیں ابا شائع کراتے تھے آج وہ کیوں خاموش ہیں؟

واحد کی والدہ بیٹے کی گمشدگی کی وجہ سے ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ بیوی کا بےبسی میں رو رو کر برا حال ہوچکا ہے۔ ان کی چھوٹی بیٹی نے سکول جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔

ہانی بلوچ کے مطابق ان سے ہر کوئی سوال کرتا ہے کہ آپ کے والد مجرم ہیں یا سیاسی کارکن؟ ’میں ان سے ایک بیٹی اور اس ملک کی شہری کی حثیت سے سوال کرتی ہوں یہاں عدالتیں موجود ہیں اگر کوئی مجرم بھی ہے تو اس کا جرم تو بتا دیا جائے۔ جب یہاں قانون موجود ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمیں ذہنی اذیت دی جا رہی ہے۔‘

غریب گھرانے اور علاقے میں پروش پانے والے واحد بلوچ اپنے علاقے کے بچوں کو پڑھاتے بھی تھے۔ بقول ان کی بیگم ’وہ کہتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بچے گینگز میں شامل ہو جائیں۔ وہ زیادہ تر پیدل سفر کرتے اور کہتے کہ یہ پیسے بھی بچوں کی تعلیم میں کام آئیں گے۔‘

حکومت پاکستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کے پاس گذشتہ سات ماہ میں 510 افراد کی جبری گمشدگی کی شکایت موصول ہوئی ہیں جبکہ 2011 میں اس کمیشن کے روبرو 138 مقدمات تھے۔ اس سال جولائی کے اختتام تک ان کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے تجاوز کر چکی تھی جن میں 21 سو کے قریب کو نمٹا دیا گیا ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس کمیشن کی کارکردگی مایوس کن ہے، 2010 سے جو لوگ لاپتہ ہیں ان کی بازیابی کم اور لاشوں کی برآمدگی زیادہ ہوئی ہے۔

نصراللہ کے بھائی بھی لاپتہ ہیں۔ وہ عدالتوں اور اس کمیشن کی سماعتوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کے سربراہ کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں اور انھوں نے کہا کہ آپ شواہد لائیں ہم کارروائی کریں گے۔ ’کئی شواہد فراہم کیے گئے لیکن کمیشن نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے پاس بھی لاپتہ افراد کی شکایت آتی ہیں۔ کمیشن کی رہنما حنا جیلانی کے مطابق زیادہ تر شکایت بلوچستان سے آ رہی ہیں لیکن سیاسی تنازعات بڑھنے سے یہ شکایت پھیل رہی ہیں۔ ’جہاں ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کا نظام چل رہا ہے چاہے وہ فاٹا میں ضرب عضب کی صورت میں ہو، خیبر پختونخوا یا بلوچستان میں ہو وہاں جبری گمشدگیاں تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہیں۔‘

’احساس کمتری کا احساس ریاست کے ساتھ تضاد پیدا کر رہا ہے اور اس میں ریاست جس رد عمل کا اظہار کرتی ہے وہ قانون کی پاسداری یا بالا دستی کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں سے نمٹنے کے لیے ہے جس میں وہ قانون کو بھی نظر انداز کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close