تجارت

خاتون نے کرونا وائرس سے بچانے کے لیے خصوصی مشین تیار کی

فلسطینی خاتون نے غزہ میں لوگوں کو وائرس سے بچانے کے لیے خصوصی مشین تیار کی ہے۔

مشین سے ہوٹل یا دیگر عوامی مقامات میں داخل ہونے والے شخص کے جسم کا درجہ حرارت چیک کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھوں پر جراثیم کش اسپرے ہوتا ہے۔

اگر کسی شخص کے جسم کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہو تو اس مشین میں ایک سرخ بتی روشن ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر ہوٹل آنے والے صارف کے جسم کا درجہ حرارت معمول کے مطابق ہے تو ہوٹل کا دروازہ خود کار طریقے سے کھل جاتا ہے۔

یہ مشین بنانے والی کاروباری خاتون حیبہ الہندی کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت ماپنے اور جراثیم کا خاتمہ کرنے کے لیے آلات غزہ کے باہر سے منگوائے گئے ہیں۔ یہ ڈیوائس کئی ٹیکنالوجیز کا مجموعہ ہے۔

فلسطین کا سمندر کے کنارے واقع یہ علاقہ 2007 سے اسرائیل کی ناکہ بندی کا شکار ہے۔ کرونا وائرس کے آغاز پر گنجان آباد علاقے غزہ میں بڑی تعداد میں لوگ وبا سے متاثر ہوئے تھے۔ انتہائی ابتر معاشی حالات، صحت کے تباہ حال نظام اور بجلی کی مستقل بندش کے ساتھ ساتھ ناکہ بندی سے غزہ میں وبا تیزی سے پھیلنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

غزہ میں اب تک ساڑھے پانچ ہزار کے لگ بھر کیسز سامنے آ چکے ہیں جب کہ وبا سے 31 اموات ہوئی ہیں۔

حیبہ الہندی کہتی ہیں کہ کرونا وائرس جب غزہ میں پھیلنا شروع ہوا تو انہوں نے خود سے کہا کہ وہ کوئی ایسا راستہ نکالنے کی کوشش کریں گی جس سے اس وبا کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ان کے بقول پھر انہیں ایک سینیاٹائزر بنانے کا خیال آیا تو انہوں نے یہ اسمارٹ مشین ڈیزائن کی۔

یہ مشین تیار کرنے والی 37 سالہ خاتون حیبہ الہندی ایک کمپنی ‘انوویشن میکرز’ کی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے وبا سے لوگوں بچانے کے لے بنیادی طور پر آٹھ مشینیں ڈیزائن کی ہیں۔ ان میں ایک نیلے اور پیلے رنگ کی روبوٹ کی شکل کی بھی مشین ہے جس کو بنانے کا مقصد بچوں کو آگاہی دینا ہے۔

حیبہ الہندی کہتی ہیں کہ اس منصوبے سے پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ البتہ ان کی توجہ منافع کمانے پر نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم فلسطین کی تیار کردہ مصنوعات پر توجہ دے رہے ہیں۔ اور دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں ناکہ بندی کے شکار غزہ میں بھی ایجادات ہو رہی ہیں۔

حیبہ الہندی کی کمپنی ‘انویشن میکرز’ اب تک کئی مشینیں فروخت کر چکی ہے۔ ان کی مشینوں کے زیادہ تر خریدار سپر مارکیٹ، بیکریوں اور ہوٹلوں کے مالکان ہیں۔

اس مشین کی قیمت 500 ڈالرز سے 1500 ڈالرز کے درمیان ہے۔ مشین کی قیمت کا تعین اس میں استعمال کی گئی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

حیبہ الہندی نے اس مشین کو مغربی کنارے میں رملہ میں فلسطینی وزارتِ معیشت میں بھی رجسٹرڈ کرایا ہے۔

ان کی کمپنی نے ان مشینوں کے لیے پرزہ جات مقامی مارکیٹ سے ہی حاصل کیے ہیں۔ تاہم اسرائیل کی برآمدات پر عائد کردہ پابندی کی وجہ سے حیبہ الہندی کا ‘میڈ اِن غزہ’ کا منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔

ان مشینوں کو خرید کر اپنے ہوٹلوں یا دیگر کاروباری مقامات کے باہر نصب کرنے والے اس کی تعریف بھی کر رہے ہیں کہ اس سے وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب مقامی شہری بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کہ مقامی سطح پر کوئی مشین تیار کی گئی ہے۔

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں رہنے والی نصف آبادی بے روزگار ہے۔ جب کہ ان میں دو تہائی نوجوان بھی شامل ہیں۔

غزہ کی مجموعی آبادی کا دو تہائی حصہ انسانی بنیادوں پر ملنے والی امداد پر گزر بسر کر رہا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close