Featuredاسلام آباد

براہ راست سپریم کورٹ آنے سے ایک فریق کا اپیل کا حق ختم ہوجاتا ہے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے آئینی خلاف ورزیوں پر نیب قانون کی شقوں کو کالعدم قرار دینے سے متعلق تمام تفصیلات طلب کرلیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہر قانون عوامی اہمیت کاحامل ہوتا ہے، عدالت کیسے تعین کرے گی کون سا قانون اہمیت کا حامل ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عوامی اہمیت کسی بھی قانون کوچیلنج کرنےکی بنیادنہیں،عوامی اہمیت کی بنیادپر قوانین کاجائزہ لیا تو درخواستوں کا سیلاب آئےگا، کون سے مقدمات عوامی اہمیت کے ہیں یہ آئین میں واضح نہیں۔

مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں آتا تو عدالت کے لئے زیادہ مناسب ہوتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ براہ راست سپریم کورٹ آنےسےایک فریق کااپیل کاحق ختم ہوجاتاہے، بعض اوقات ایک صوبہ کسی قانون کو اچھا دوسرا بُرا کہتا ہے،ایسی صورت حال میں کوئی بھی عدالت سےرجوع کرسکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ تعین کرتی ہے اسے اپنا دائرہ اختیار استعمال کرنا ہے یا نہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں سپریم کورٹ ہائی کورٹس میں زیرالتواءمقدمات بھی منگواتی رہی ہے، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 4 رکنی بينچ کہہ چکا ہے کہ مقدمات منگوانے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ صرف مقدمات ایک سے دوسری ہائی کورٹ منتقل کرسکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آئین کسی رکن کو منتخب ہونے کے بعد اسمبلی مدت مکمل کرنے کا پابند کرتا ہے؟ جواب میں وفاقی حلومت کے وکیل نے کہا کہ اسمبلی رکن 40 دن تک بغیر اطلاع غیرحاضر رہے تو ڈی سیٹ ہوسکتا ہے، تاہم یہ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ کسی ممبر کو ڈی سیٹ کرے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کہ آئینی خلاف ورزیوں پر نیب قانون کی شقوں کو کب کب کالعدم قرار دیاگیا اس کی تفصیلات دیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close