اسلام آباد

تحریک انصاف کے لوگوں میں غیرت، شرم، حیا نام کی کوئی چیز نہیں، خواجہ آصف

اسلام آباد: وزیر خارجہ خواجہ آصف تحریک انصاف اور شیخ رشید پر برس پڑے۔ کہتے ہیں کہ ان لوگوں میں غیرت، شرم، حیا نام کی کوئی چیز نہیں۔ پہلے بھی تحریک انصاف کے لوگ بےشرمی کے ساتھ استعفے دے کر واپس آئے، شاہ محمود قریشی نے اسپیکر کو استعفے منظور کرنے سے روکا تھا۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آئینی اداروں میں سب سے بلند ادارہ ہے، اگر ہم اسے عزت اور توقیر نہیں دیں گے تو کوئی بھی اس کی عزت نہیں کرے گا۔ پہلے بھی تحریک انصاف کے لوگ بےشرمی کے ساتھ استعفے دے کر واپس آئے اور آج پھر استعفوں کی باتیں ہورہی ہیں، ان لوگوں میں غیرت، شرم، حیا نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

خواجہ آصف کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی ارکان نے مداخلت کی ڈپٹی اسپیکر نے پی ٹی آئی ارکان کو بات کرنے سے روک دیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ادارے کو گالیاں دینے کا حق کسی کو نہیں، تحریک انصاف ایک بار پہلے استعفے دے چکی ہے، اس وقت اسپیکر کو کہا گیا کہ آپ استعفے منظور نہ کریں، اس دوران وہ پارلیمنٹ سے مراعات بھی لیتے رہے۔ ان لوگوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا، خواجہ آصف نے کہا کہ آپ ان راستوں سے کبھی حکومت میں نہیں آ سکتے، اسی لیے چار سالوں سے سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔

خواجہ آصف نے شیخ رشید پر نام لئے بغیر تنقید کی اور کہا کہ پارلیمنٹ کو گالیاں دینے والے کو 2001ء میں کور ہیڈ کوارٹر بلایا گیا، اس وقت ایک کرنل نے لعنت بھیجنے والے کو تھپڑ مار دیا، وہ موصوف اس وقت رونا شروع ہو گئے تھے، اس وقت شاہد خاقان عباسی نے کرنل کو بھرپور جواب دیا تھا۔ اس کرنل کو بعد میں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اسپیکر اپنے اختیارات استعمال کریں اور ان لوگوں کو استحقاق کمیٹی میں بلایا جائے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قصور کے واقعے پر سیاست کی جارہی ہے، طاہر القادری کا پاکستان اور ملکی سیاست سے کوئی تعلق نہیں، طاہر القادری نے مذہب کو کوٹ مار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے، عوام توہم پرستی کا شکار ہیں، لوگ لچھے دار باتیں کرنے والوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں جہاد کیا جس کے ثمرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں، 1990ء کی دہائی میں طالبان کا معاملہ عروج پر رہا، نائن الیون کے بعد ہم امریکہ کے سہولت کار بنے، آج ہم ان فیصلوں کے نتائج بھگت رہے ہیں، ہم دہشتگردی کے خلاف لڑنے کی بجائے امریکہ کے سہولت کار بنے رہے، خطے میں ہمارا کردار ہمارے مفادات سے ہم آہنگ نہیں رہا، اب ہم اپنے کردار کو اپنے مفادات سے ہم آہنگ کر رہے ہیں، اپنی غلط پالیسیوں کی بجائے ہم اب الزام تراشیوں کی زد میں ہیں، ہم مشرقی اور مغربی سرحد پرامن چاہتے ہیں، ہم بھارت کو افغانستان کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے سہولت دینا چاہتے ہیں جبکہ افغانستان بضد ہے کہ اسے واہگہ بارڈر سے تجارت کی اجازت دی جائے۔

خواجہ آصف نے بتایا کہ پاکستان افغانستان کو واہگہ سے تجارتی راہداری دینے سے منکر ہے، اس وقت پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تجارت کم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خطے میں کردار کے حوالے سے بحث کی ضرورت ہے، یکم فروری کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے، اس اجلاس میں وزارتیں اور سیکیورٹی اداروں کی بھی بریفنگ ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ کمیٹی کی بجائے پورے ایوان کو بریفنگ دینے کے لیے تیار ہوں، کمیٹی میں امریکی صدر کی دھمکیوں اور خطے کی صورتحال پر بات ہو گی۔

وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش حکومت 1974ء کے معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہی، بنگلہ دیش نے 1971ء کے جنگ کے لوگوں کو پھانسیاں دیں، پاکستان میں سارک سربراہی کانفرنس کو سبوتاژ کرنے والوں میں بنگلہ دیش بھی شامل تھا، اس کے باوجود پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے، پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے، چین، ایران، بھارت، افغانستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستان نے دہشتگرد گروہوں کے خلاف موثر کاروائی کی ہے، اپنے علاقوں سے کئی دہشتگرد گروہوں کا خاتمہ کیا ہے۔

خواجہ آّصف نے ایوان کو بتایا کہ دو لاکھ فوجی جوان افغان سرحد پر تعینات ہیں، پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ انفرا سٹرکچر تعمیر کر رہے ہیں، افغانستان میں استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے، 50 ہزار سے زائد افغانیوں کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں تعلیم دی گئی۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل بامعنی مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے اور بھارت پر یہ بات واضح کی گئی ہے، موجودہ حکومت نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے اقدامات کیے، سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مشکلات کے باوجود نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بھارت نے 2014ء میں سیکرٹری خارجہ مذاکرات معطل کیے، 2015ء میں کشمیر کو ایجنڈے سے نکالنے پر اصرار کیا، 2016ء میں بھارتی سیکرٹری خارجہ کا دورہ پاکستان بغیر وجہ بتائے منسوخ کیا گیا، حتیٰ بھارت نے سارک سربراہ کانفرنس سے بھی راہ فرار اختیار کی، وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 2017ء میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ سے 54 پاکستانی جاں بحق اور 20 ز خمی ہوئے۔ بھارت نے کلبھوشن سے فیملی کی ملاقات کو بھی سیاسی رنگ دیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close