خیبر پختونخواہ

ایک ایسا ادارہ بنائیں جو سب پر نظر رکھے

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو فوج، عدلیہ اور پارلیمنٹ پر مسلسل نظر رکھے اور جو کوئی بھی بدعنوانی کا مرتکب ہو اس کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے سیکریٹری آفتاب احمد کی رینجرز کی تحویل میں ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بحث کرنے کی اجازت تک نہیں دی گئی۔

محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ’جب ملزم 90دن تک رینجرز کی تحویل میں ہیں تو پھر اس کے ناخن کھنچنے کی کیا ضرورت تھی۔‘

’ آفتاب احمد کی تشدد شدہ لاش کی تصویریں مختلف اخبارات کی زینت بنیں لیکن قومی اسمبلی اس پرخاموش رہی جو کہ خظرناک نشانیاں ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو اسے بھارت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنانا ہوگا جبکہ افغانستان کے ساتھ دوستی کو بھی مزید بہتر بنانا ہوگا۔‘

محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کے بعد جب بھارت کی طرف سے براہ راست پاکستان پر الزام تراشی کی جارہی ہو تو ایسے حالات میں وزیراعظم پاکستان کس طرح بیرون ملک جاکر اپنا موقف بیان کر سکیں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں پارلیمنٹ کے اندر ہی بنائی جائیں۔

محمود خان اچکزئی کے بقول پاناما لیکس کے معاملے پر پارلیمنٹ نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں جس کی وجہ سے بعض سیاست دانوں نے اخلاقیات سے گری ہو باتیں کیں۔

قومی احتساب بیورو ملزمان کے ساتھ پلی بارگین کر کے کچھ رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کے بعد ملزم کو شرافت کا سرٹیفکیٹ تھما دیتے ہیں جو کہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔

دوسری جانب قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ضوابط طے کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔

اس کمیٹی میں 12 اراکان ہوں گے جن میں چھ کا تعلق حکمران اتحاد جبکہ چھ حزب مخالف کی مختلف سیاسی جماعتوں سے ہوں گے۔

اس پارلیمانی کمیٹی میں حزب مخالف کے چھ ارکان میں متحدہ قومی موومنٹ کو شامل نہ کیے جانے پر ایم کیو ایم نے قائد حزب اختلاف سے احتجاج کیا۔

ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی آصف حسنین کا کہنا تھا کہ جب ایم کیو ایم پاناما لیکس کے ضوابط کار طے کرنے میں حزب مخالف کے ساتھ تھی تو پھر اسے اس پارلیمانی کمیٹی میں کیوں شامل نہیں کیا گیا جبکہ وہ عددی اعتبار سے قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی تیسری بڑی جماعت ہے۔

اس سے پہلے حکومت نے پارلیمانی کمیٹی کی تعداد 16 کرنے سے متعلق ایک قرارداد پیش کی تاہم حزب مخالف کی دو جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے بعد یہ قرارداد واپس لے لی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close