کھیل و ثقافت

سابق باکسنگ چیمپیئن محمد علی چل بسے

باکسنگ کے سابق ہیوی ویٹ چیمپیئن محمد علی کے خاندان کے ایک فرد نے تصدیق کی ہے کہ وہ انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر 74 برس تھی۔

وہ سانس کی تکلیف کے باعث دو دن سے ہسپتال میں داخل تھے۔

ان کے اہل خانہ کے مطابق ان کی تدفین ان کے آبائی شہر کینٹگی کے لوئس ول میں ہوگی۔

سابق ہیوی ویٹ چیمپیئن محمد علی کے ترجمان نے تصدیق کی تھی کہ سانس کی تکلیف کے باعث ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔ جمعے کو ان کی صحت کے بارے میں تشویش ناک خبریں سامنے آئی تھیں لیکن سانس کی تکلیف اور پرانی بیماری پارکنسن نے معاملے کو مزیدہ پیچیدہ بنا دیا تھا۔

محمد علی تین مرتبہ باکسنگ کے عالمی چیمپیئن رہ چکے ہیں۔

کئی نامور شخصیات نے انھیں اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہوئے ان کی صحتیابی کے لیے دعا کی تھی، جن میں برطانیہ کے عالمی چیپمیئن ٹونی بیلیوو بھی شامل ہیں

محمد علی نے سنہ 1984 میں پارکنسنز کی تشخیص کے بعد باکسنگ چھوڑ دی تھی۔

تین مرتبہ عالمی فاتح رہنے والے علی کو آخری بار سنہ 2015 میں پیشاب کی تکلیف کے باعث ہسپتال داخل کروایا گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ سنہ 2014 میں نمونیے کے باعث ہسپتال میں داخل رہے۔

وہ پہلی مرتبہ 1964 میں باکسنگ کے عالمی چیمپیئن بنے پھر انھوں نے یہ اعزاز 1974 اور پھر 1978 میں بھی حاصل کیا۔

امریکہ کی ریاست کینٹکی سے تعلق رکھنے والے باکسر محمد علی پہلے کیسیئس کلے کے نام سے جانے جاتے تھے لیکن سونی لسٹن کے خلاف 25 فروری سنہ 1964 کو ہونے والے اہم مقابلے کے اگلے ہی دن انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اسلام قبول کر رہے ہیں، جس کے بعد انھوں نے اپنا نام بدل کر محمد علی رکھ لیا تھا۔

انھوں نے سنہ 1960 میں روم اولمپکس مک؛ن لائٹ ہیوی ویٹ میں طلائی تمغہ حاصل کرکے شہرت حاصل کی تھی۔

ان کے نام کے ساتھ ’گریٹیسٹ‘ یعنی عظیم ترین لگایا جاتا ہے۔ انھوں نے 1964 میں سونی لسٹن کو شکست دے کر پہلا عالمی خطاب حاصل کیا تھا اور پھر تین بار یہ خطاب حاصل کرنے والے وہ پہلے باکسر بنے تھے

انھوں نے 61 مقابلوں میں 56 مقابلے جیت کر بالآخر سنہ 1981 میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔

انھیں سپورٹس السٹریٹیڈ نے ’سپورٹس مین آف دا سنچری‘ کے خطاب سے نوازا تو

انھیں ’سپورٹس پرسنالٹی آف دا سنچری‘ کا خطاب دیا۔ محمد علی مقابلے سے قبل اور اس کے بعد کے اپنے بیانات کے وجہ سے معروف تھے۔ وہ رنگ میں جس قدر اپنا ہنر دکھاتے اسی قدر رنگ کے باہر اپنے بیان سے محظوظ کرتے۔

اس کے علاوہ وہ شہری حقوق کے علمبردار اور شاعر بھی تھے۔

ان سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ وہ کس طرح یاد کیا جانا چاہیں گے تو انھوں نے کہا تھا: ’ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے کبھی اپنے لوگوں کا سودا نہیں کیا۔ اور اگر یہ زیادہ ہے تو پھر ایک اچھے باکسر کے طور پر۔ مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا اگر آپ میری خوبصورتی کا ذکر نہ کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close