کھیل و ثقافت

ٹاپ ٹین ’’کھبے‘‘ بلے باز

کرکٹ میں بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے بیٹسمین بہت بڑے اثاثہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بایاں ہاتھ سے بلے بازی کرنے کے کئی ایڈوانٹیج ہیں۔ اگرچہ اس حقیقت کوبعض آسٹریلین ماہرین رد کرچکے ہیں کہ …

لیفٹ ہینڈ بلے بازوئوں کو عام بلے بازوں پر فوقیت حاصل نہیںہوتی لیکن اس کے باوجود کرکٹ کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ ایسے سپیشل بلے بازوں کو واقعتاً فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے رنز زیادہ ہوتے ہیں اوران کو آئوٹ کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔یہ زیادہ بائونڈریز مارتے ہیں البتہ لیفٹ ہینڈ بیٹسمینوں کی یہ خامی سامنے آئی ہے کہ وہ بائولرز کی بے تحاشا پٹائی کرتے ہوئے اپنی وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں۔ آئیے ٹاپ ٹین’’ کھبے‘‘ بلے بازوں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ سینیارٹی کی بنا پر اگر یہ فہرست بنائی جاتی تو گیری سوبرز سرفہرست آتے لیکن اگر ریکارڈز کی بنا پر ایسی فہرست مرتب کی جائے تو پہلے نمبر پر برائن لارا آتے ہیں۔ -1 برائن لارا برائن لارا ٹیسٹ کرکٹ میں کبھے بلے بازوں میں سب سے زیادہ 11953 رنز کے ریکارڈ کے مالک ہیں۔اُن کو کئی حوالوں سے یاد رکھا جاسکتا ہے۔ وہ دنیائے کرکٹ کے ایک ایسے ریکارڈ ساز بیٹسمین ہیں جن کی عظمت کے گن سب ہی گاتے ہیں اور اُن کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں۔انہی صلاحیتوں کی بدولت انہیں سرڈان بریڈمین، سرلین ہٹن، سرگیری سوبرز، سنیل گاوسکر، بیری رچرڈز اور سچن ٹنڈولکر کے ساتھ دنیائے کرکٹ کے چند عظیم بیٹسمینوں میں شمار کیا جاتا ہے۔برائن لارا کا ٹیسٹ اور ون ڈے کیرئر پاکستان کے خلاف میچوں سے شروع ہوا اور یہ بھی اتفاق ہے کہ ان کی الوداعی ٹیسٹ سیریز پاکستان کے خلاف تھی۔ یہ وہی سیریز ہے جس میں محمد یوسف بولرز سے کوئی رعایت کے لئے تیار نہیں تھے لیکن اس سیریز کے ملتان ٹیسٹ میں لارا کی انتہائی جارحانہ انداز میں کھیلی گئی شاندار ڈبل سنچری کو جس نے بھی دیکھا وہ اسے نہیں بھول سکتا۔ انہیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے دو مرتبہ ٹیسٹ کرکٹ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز کے عالمی ریکارڈ کو اپنے نام کیا۔ ویسٹ انڈیز کے اس لیجنڈری بلے باز برائن لارا نے اپنے دورمیں کئی ٹیموں کی طرف سے شاہکار اننگز کھیلی ہیں۔ ان ٹیموں میں میری لی بون کرکٹ کلب، ممبئی چیمپئنز، ناردن ٹرانسول، سرون راکسس اور وارویکشائر جیسی ٹیمیں شامل ہیں۔ ویسٹ انڈیز کی کرکٹ کی تاریخ مرتب کی جائے تو لارا کا نام سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے 132 ٹیسٹ میچز کی 232 اننگز میں 11953 رنز بنائے ہیں۔ ان کا بہترین ٹیسٹ سکور 400 ناٹ آئوٹ ہے۔ ان کے ریکارڈ میں 34 سنچریاں اور 48 نصف سنچریاں درج ہیں۔ وہ چھ مرتبہ ٹیسٹ میچز میں ناٹ آئوٹ رہے۔ اگر ون ڈے میچز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو 299 ون ڈے میچز میں انہوں نے 10405 رنز بنائے ہیں اور 169 رنز کی طویل اننگز بھی ان کے نام لکھی جا چکی ہے۔19 سنچریاں اور 63 نصف سنچریوں کی وجہ سے انہیں ون ڈے کھلاڑیوں میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ویسٹ انڈیز کا یہ کھبا بلے باز ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ -2 سارو گنگولی کسی بھی ٹیم میں کپتان کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو کسی جہاز کے کپتان کی، جو اپنے عملے کے ہمراہ ہوائوں کو شکست دیکر یا سمندر کا سینہ چیر کرمسافروں کو منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔ ایک کپتان ٹیم کے انتخاب سے لیکر گرائونڈ میں فیلڈنگ سیٹ کرنے،بائولنگ کی تبدیلی اور بلے بازوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق کریز پر بھجوانے سے لیکر فتح کا کریڈٹ یا شکست کا داغ لینے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ کھیل میں کئے گئے ہرفیصلے کا ذ مہ دار ہوتا ہے۔ ایک ذہین کپتان ہمہ وقت کھیل کے پل پل پر نظر رکھتا ہے اور بروقت تبدیلیوں سے اپنی ٹیم کو شکست سے بچاتا ہے۔ فتح کی جانب بڑھتا ہے اور کبھی کبھی تو شکست کو شکست دیکر فتح کا رخ اپنی جانب موڑ لیتا ہے۔ ایسے ہی ذہین کپتانوں میں سے ایک نام سارو گنگولی کا ہے۔ بھارت کے ساروگنگولی نہ صرف ایک شاندار بلے باز بلکہ وہ ایک کامیاب کپتان بھی رہے ہیں۔ برائن لارا کی طرح اپنی قومی ٹیم میں بے پناہ خدمات سرانجام دینے کے علاوہ وہ مختلف ٹیموں کی طرف سے کھیلتے ہوئے ان کی شاندار فتوحات کا سبب بھی بنے۔ ان ٹیموں میں بنگال، کولکتہ نائٹ رائیڈر، لنکاشائر، میریلی بون کرکٹ کلب، نارتھمپٹن اور پونے وارئرز شامل ہیں۔ ان کے ٹیسٹ ریکارڈ پر ایک نظر ڈالیں تو 113 ٹیسٹ میچز کی 188 اننگز میں انہوں نے 7212 رنز بنائے جس میں 16 سنچریاں اور35 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ انہوں نے 188 اننگز میں بہترین اننگز 239 رنز کی کھیلی۔ وہ 17 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہے۔ ان کے ون ڈے میچز کی تعداد 311 ہے۔ جس میں انہوں نے 11353 رنز بنائے۔ ان کا بہترین سکور183 ہے۔ اس ریکارڈ کی وجہ سے انہیں ٹاپ ٹین کھبے بلے بازوں میں دوسرے درجے پر رکھا گیا ہے۔ ون ڈے میں انہوں نے 22 سنچریاں اور72 نصف سنچریاں بنائی ہیں وہ 23 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہے۔ -3 سرگیری سوبرز کرکٹ کے کھیل میں مہارت کے حساب سے کھلاڑیوں کی درجہ بندی کریں تو کھلاڑیوں کو بیٹسمین، باؤلر، وکٹ کیپر کی کیٹگری میں تقسیم کیا جائے گا۔ ان کرکٹرز کی اکثریت اس درجہ بندی میں سے کسی ایک شعبے میں ہی ماہر ہوتی ہے تاہم کچھ ایسے کھلاڑی بھی ہوتے ہیں جو ایک کی بجائے زیادہ شعبوں میں ماہر ہو سکتے ہیں اور انہیں ہی آل راؤنڈر کہا جاتا ہے۔کرکٹ میں آل راؤنڈرز کا جب بھی ذکر آئے گا تو ویسٹ انڈیز کے سر گیری فیلڈ سوبرز کا نام سب سے اوپر ہو گا۔ 1936ء کو پیدا ہونے والے گیری فیلڈ سوبرز نے 1954ء سے 1974ء تک ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کی، وہ جتنے اچھے باؤلر تھے، اتنے ہی اچھے بلے باز بھی تھے۔ کرکٹ میں جو عزت و تکریم سرگیری سوبرز کے حصے میں آتی ہے شاید ہی کوئی اور کھلاڑی اس درجے کی عزت کو پا سکا ہے۔ وہ ہمیشہ ہی معتبر رہے ہیں۔ بایاں ہاتھ سے کھیلنے والے سرگیری سوبرز نے بھی مختلف ٹیموں کی طرف سے شاندار کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ قومی ٹیم کے علاوہ وہ بار باڈوس، نارتھمپٹن شائر اور سائوتھ آسٹریلیا کی طرف سے بھی کھیلتے رہے ہیں۔ انہوں نے 93 ٹیسٹ میچز میں 160 اننگز کھیلی ہیں جس میں انہوں نے 8032 رنز بنائے ہیں۔ ان کا بہترین سکور 365 ناٹ آئوٹ ہے۔ ان کے کھاتے میں 26 سنچریاں اور30 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ان کے دورمیں ون ڈے کرکٹ تو نہیں تھی البتہ انہوں نے 383 فرسٹ کلاس میچز میں 28314 رنز بنائے ہیں۔ ان کے اس ریکارڈ کی وجہ سے انہیں بایاں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے بازوں کی فہرست میں تیسری پوزیشن پر رکھا گیا ہے۔ -4 ایڈم گلکرسٹ آسٹریلیا کے ریٹائرڈ لیفٹ ہینڈڈ عالمی شہرت کے حامل کھلاڑی ایڈم گلکرسٹ بھی قومی ٹیم کے علاوہ دکن چارجرز، کنگز الیون پنجاب، مڈل سکس، نیو سائوتھ ویلز کی طرف سے کھیلتے رہے۔ انہوں نے 96 انٹرنیشنل ٹیسٹ میچز میں 137 اننگز کھیلی ہیں اور 5570 رنز بنائے ہیں۔ سب سے زیادہ 204 ناٹ آئوٹ بنائے۔ اپنے کیریئر میں 17 سنچریاں بنائیں اور 26 نصف سنچریاں بنائیں۔ وہ بیس مرتبہ ناٹ آئوٹ رہے۔287 ون ڈے میچز میں انہوں نے 9619 رنز بنائے جن میں ان کا بہترین سکور 172 رنز ہیں۔ ون ڈے میں انہوں نے 16 سنچریاں اور55 نصف سنچریاں بنائی ہوئی ہیں وہ 11 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہے۔ایک مرتبہ کسی نے گلکرسٹ سے پوچھا کہ ان کا بیٹنگ سے متعلق فلسفہ کیا ہے تو جواب تھا کہ ’بس گیند کو مارو‘۔بارباڈوس کے برج ٹاؤن میں کنگسٹن اوول گراؤنڈ میں بس گلکرسٹ نے یہ ہی کیا۔ ایک سو چار گیندوں پر تیرہ چوکوں اور آٹھ چھکوں کی مدد سے ایک سو انچاس رنز بنائے۔ بس گیندوں کو مارو۔ یہ ہی ٹھیک فلسفہ ہے۔2007ء کا ورلڈ کپ بیٹنگ کے حوالے سے گلکرسٹ کے لیے اتنا اچھا نہیں رہا۔ انہوں نے اس میچ سے پہلے دس میچوں میں تین سو چار رنز بنائے جس میں دو نصف سنچریاں شامل تھیں۔ تاہم فائنل میں جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی گلکرسٹ نے وہ ہی کیا جو وہ ہمیشہ کرتے ہیں۔ کم سے کم گیندوں پر سب سے زیادہ سکور۔ یہ عالمی کپ کی تاریخ کے کسی بھی فائنل میچ میں سب سے تیز سنچری ہے ۔ گلکرسٹ نے 149 رنز بنا کر اپنے کپتان کا پچھلے ورلڈ کپ کا ریکارڈ توڑ دیا۔گلکرسٹ نے ہمیشہ اس وقت سکور کیا جب ٹیم کو اس کی اشد ضرورت تھی۔یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ گلکرسٹ نے عالمی کپ کے فائنل میں اس وقت سکور کیا ہے جب اس کی اشد ضرورت ہو۔انیس سو ننانوے کے فائنل میں گلکرسٹ نے لارڈز میں پاکستان کے خلاف 36 گیندوں پر 54نز بنا کر آسٹریلیا کی فتح میں حصہ ڈالا۔ جوہانسبرگ کے 2003ء میں ہونے والے ورلڈ کپ کے فائنل میں انہوں نے انڈیا کے خلاف48 گیندوں پر 57 رنز بنائے۔ تاہم برج ٹاؤن کے فائنل میں انہوں نے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ان کی کارکردگی کی وجہ سے انہیں بایاں ہاتھ کے بلے بازوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ -5 کمارسنگاکارا سری لنکن رن مشین کا ایک اور اعزاز یہ رہا کہ وزڈن نے سری لنکا کے عظیم بیٹسمین کمارسنگا کارا کو گزشتہ برس مسلسل دوسرے سال بہترین کرکٹر قراریا۔کمارسنگاکارا نے 2014ء میں بیٹنگ کے ایسے جوہردکھائے کہ وہ دیگربیٹسمینوں پر سبقت لے گئے، ٹیسٹ میں بھی رنز کے انبار لگائے،ون ڈے کیرئیر کا بھی بہترین انداز میں اختتام کیا، شاندار پرفارمنس کے بعد کمارسنگاکارا اپنی ٹیم سے کیا گئے، یوں لگتا ہے جیسے ٹیم کا اہم ستون ٹوٹ گیا ہو۔ ماضی کی عالمی چیمپئن سری لنکن ٹیم اس وقت کارکردگی کے حوالے سے مایوس کن کھیل پیش کر رہی ہے۔ کمارسنگاکارا ان بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے عزت سے میدان چھوڑا ہے۔ سری لنکا کی قومی ٹیم کے علاوہ ان کی شاندار کارکردگی کو دکن چارجرز، جمیکا تالاواز، کنگز الیون پنجاب، میری لی بون کرکٹ کلب اور سن رائز حیدر آباد جیسی ٹیموں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے 130 ٹیسٹ میچز کی 225 اننگز میں 12203 رنز بنائے ہیں جن میں ان کا سب سے زیادہ سکور 319 ہے۔ انہوں نے 38 سنچریاں اور51 نصف سنچریاں بنائی ہیں۔ وہ 17 اننگز میں ناٹ آئوٹ رہے۔ ون ڈے میں انہوں نے 404 میچز کھیلے اور 14234 رنز بنائے جس میں ان کا زیادہ سے زیادہ سکور169 رہا۔ اس ریکارڈمیں 25 سنچریاں اور93 نصف سنچریاں شامل ہیں ۔ وہ 41 میچز میں ناٹ آئوٹ پویلین لوٹے۔ -6 کلائیولائیڈ کلائیولائیڈ کا نام ان شہرہ آفاق کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے شاندار ویسٹ انڈیز ٹیم کی قیادت کی۔ ان کے دور میں یہ ٹیم کالی آندھی کے نام سے مشہور ہوئی۔ وہ جدھر بھی جاتے فتح کے جھنڈے گاڑتے چلے جاتے۔ کلائیولائیڈ بایاں ہاتھ سے کھیلنے والے دنیا کے چھٹے بہترین کھلاڑی ہیں۔ وہ ویسٹ انڈیز کے علاوہ انگلش کائونٹ میں بھی ممتاز رہے۔ دراز قد کے یہ بلے باز 110 ٹیسٹ میچز میں 175 اننگز کھیل کر 7515 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کا سب سے زائد ٹیسٹ سکور 242 ناٹ آئوٹ ہے۔ انہوںنے 19 سنچریاں اور 39 نصف سنچریاں بنائی ہیں جبکہ 14 مرتبہ وہ ناٹ آئوٹ ٹھہرے۔87 ون ڈے میچز میں انہوں نے 1977 رنز بنائے جس میں ایک سنچری اور 11 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ -7 سنتھ جے سوریا ون ڈے کرکٹ میں بطور اوپنر شہرت کمانے والا یہ کھلاڑی تیز کرکٹ کھیلنے کے حوالے سے خاص مشہور ہوئے۔ انہوں نے 1996 میں ورلڈ کپ میچز میں بطور اوپنر اپنے اپ کو آزمایا اور کامیاب رہے۔ اپنی شاندار اننگز سے کئی بار دنیائے کرکٹ کو حیرت زدہ کیا، وہ ورلڈ کپ 1996 کے بہترین کھلاڑی تھے، کوارٹر فائنل میں میں انہوں نے انگلینڈ کے خلاف 44 بالز پر 82 رنز کی مشہور اننگز کھیلی، اسی موسم سرما میں پاکستان کے خلاف سنگاپور میں سنتھ جے سوریا کے بیٹ سے صرف 65 بالز پر 134 رنز کا طوفان جاری ہوا اور پھر انہوں نے صرف 17 بالز پر ففٹی بنا دی۔ جے سوریا صرف ون ڈے کے پلیئر نہیں تھے بلکہ انہوں نے ٹیسٹ میں بھی اپنا سکہ جمایا۔ سری لنکن ٹیم کے علاوہ کولمبو کرکٹ کلب ڈولفنز، میری لی بون کرکٹ کلب اور ممبئی انڈیز جیسی ٹیموںکی جان رہے ہیں۔ انہوں نے 110 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جس میں 188 اننگز میں انہوں نے 6973 رنز بنائے۔ ان کا زیادہ سکور340 ہے جن میں 14 سنچریاں اور 31 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ وہ 14 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہے جبکہ 445 ون ڈے میچز میں انہوں نے 13430 رنز بنائے جس میں28 سنچریاں اور68 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ انہیں بایاں ہاتھ سے کھیلنے والے بہترین بلے بازوں کی فہرست میں 7 ویں نمبر پر رکھا جاتا ہے۔ -8 ایلن بارڈر۔ 80 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے جب کرکٹ پر ویسٹ انڈیز کا قبضہ تھا۔ ان کے فاسٹ بائولرز نے دنیا بھر کے بلے بازوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے اور وہ ناقابل شکست ٹیم خیال کی جانے لگی۔ انہی دنوں پاکستانی ٹیم بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدانوں میں اترتی تھی۔ ویسٹ انڈیزٹیم کی ہوم گراونڈ پر میچ جیتنے کی شرح زیادہ تھی اور ان پر الزام عائد ہوتا تھا کہ اکثر غیرمعیاری ایمپائرنگ کی وجہ سے وہ میچ جیت جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر تھی اور عمران خان کپتان تھے۔دونوں ٹیموں کے اعزاز میں عشائیہ تھا۔ تقریب میں عمران خان اور ایلن بارڈر کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ ہوا جو بعد میں لطیفے کی شکل اختیار کرگیا۔ عمران خان نے ایلن بارڈر سے کہا کہ اگر میری ٹیم میں سنیل گواسکر اور بی ایس چندرشیکھر شامل ہو جائیں تو میں کبھی آسٹریلیا کو جیتنے نہ دوں۔ جواب میں ایلن بارڈر نے کہا عمران’’مجھے صرف پاکستان سے دو ایمپائر دے دیں میں دنیا کی کسی ٹیم کو کبھی جیتنے نہ دوں‘‘۔ اس پر عمران خان غصے میں آگے اور انہوں نے اس طنز پر آسٹریلین بورڈ کو سخت خط لکھا جس کے جواب میں ایلن بارڈر کو عمران خان اور پاکستان کرکٹ بورڈ سے معافی مانگنا پڑی لیکن1987ء کے ورلڈ کپ میں ایلن بارڈر کی قیادت میں نوجوان ٹیم نے ورلڈ کپ جیت کر دنیا کو حیران کردیا۔ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں شام کو پاکستان کو 18رنز سے شکست ہوئی اور اس کا عالمی کپ جیتنے کا خواب چکنا چور ہوگیا یہ خواب توڑنے والا آسٹریلوی کپتان ایلن بارڈرتھا۔ یہ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل میچ تھا۔ ایلن بارڈر نے 156 ٹیسٹ میچز کھیلے جن کی 265 اننگز میں انہوں نے11174 رنز بنائے جن میں 27 سنچریاں اور63 نصف سنچریاں شامل ہیں جبکہ ون ڈے کے 273 میچز میں انہوں نے 6524 رنز بنائے ہیں۔ ون ڈے میں 3سنچریاں اور 39 نصف سنچریاں بنانے والے ایلن بارڈر دنیا کے8 ویں بہترین بایاں ہاتھ کے بلے باز قرار پائے ہیں۔ -9سعید انور۔ پاکستان کے لیفٹ ہینڈ بلے باز سعید انور اس کیٹیگری میں نویں پوزیشن پر فائز نظر آتے ہیں۔ دنیا کا کوئی باؤلر اور کوئی فیلڈر سعید کو آف سائیڈ کی جانب کھیلنے سے نہیں روک پاتا تھا اور گیند اکثر و بیشتر دو فیلڈرز کو کاٹتی ہوئی باؤنڈری لائن کا سفر کرجاتی تھی۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سعید صرف ایک سمت میں شاٹس کھیلنے میں مہارت رکھتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اسے سعید انور نے بہتر اوپنر ابھی تک نصیب نہیں ہوسکا۔ یہ ایک عظیم کھلاڑی کی نشانی ہوتی ہے کہ اس کے جانے کے بعد متبادل تلاش کرنے میں دہائیاں گزر جائیں۔ وہ قومی ٹیم کے علاوہ ایگری کلچرل ڈویلپمنٹ بنک پاکستان، کراچی، لاہور اور یو بی ایل بنک کی طرف سے کھیلتے رہے ہیں۔ 55 ٹیسٹ میچز کی91 اننگز میں انہوں نے 4052 رنز بنائے جن میں 188 زیادہ سے زیادہ سکور تھا اور اس میں 11 سنچریاں اور25 نصف سنچریاں بھی بنائیں۔ -10 میتھیوہیڈن میتھیوہیڈن کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ وہ بایاں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے غیرمعمولی کرکٹرز کی فہرست میں دسویں نمبر پر ہیں۔میتھوہیڈن ایک کامیاب کرکٹر تھے۔ ایک عرصے تک شائقین ان کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ وہ فاسٹ اور سپن بائولنگ کو کھیلنے میں مہارت رکھتے تھے اور اپنی مرضی سے گرائونڈ کے جس حصے میں چاہتے شاٹ کھیلتے تھے۔ بائولرز ان کے سامنے بے بس نظر آتے تھے۔ وہ غیر روایتی انداز میں کھیلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اننگز کے آغاز میں ہی قدموں کا استعمال شروع کردیتے تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ سے شائقین ایک بہترین کھلاڑی سے محروم ہوگئے ہیں وہیں آسٹریلیا کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔ میتھوہیڈن نے خراب کارکردگی پر خود ہی کھیل کے میدانوں سے الگ ہو کر آسٹریلوی کھلاڑیوں کی اچھی۲ روایت کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے بھی قومی ٹیم کے علاوہ بہت سے ٹیموں کی طرف سے کرکٹ کھیلی ہے۔ مجموعی طور پر103 ٹیسٹ میچز کی 184 اننگز کھیلیں اور 8625 رنز بنائے جس میں 30 سنچریاں اور 29 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ون ڈے میچز کی تعداد 161 ہے جس میں 10سنچریوں اور 36 نصف سنچریاں شامل کرکے 6133 رنز بنائے ہیں۔ کرکٹ کا حسن بلے بازی سے وابستہ ہے اور اس حسن میں اضافہ کرنے والے بایاں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے باز بھی ہیں جن کا کرکٹ کی تاریخ میں ذکر بہترین حوالہ جات سے کیا جاتا ہے

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close