دنیا

چین میں 25 برس میں سب سے سست معاشی ترقی

چین میں حکام کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2015 میں معاشی ترقی کی شرح چھ اعشاریہ نو فیصد رہی جو کہ 25 برس میں سب سے کم شرحِ ترقی ہے۔

دنیا کی اس دوسری سب سے بڑی معیشت کی شرحِ ترقی سنہ 2014 میں سات اعشاریہ تین فیصد تھی اور 2015 میں ’تقریباً سات فیصد‘ کا ہدف مقرر کیاگیا تھا۔

چینی وزیرِ اعظم لی کیچیانگ نے کہا ہے کہ ترقی کی شرح میں کمی آنا اس وقت تک درست ہے جب تک اس کا اثر روزگار کے نئے مواقع پر نہیں پڑتا۔

انھوں نے کہا ہے کہ جب تک ملک میں طلب کے تناسب سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں ترقی کی شرح میں کمی قابلِ قبول ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین میں اگر موجودہ شرحِ ترقی میں اعشاریہ ایک فیصد کی بھی مزید کمی ہوتی ہے تو یہ مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔

حالیہ چند برسوں میں چین کی کوشش رہی ہے کہ اس کی معیشت میں بڑا حصہ برآمدات اور سرمایہ کاری کی جبکہ خدمات کا ہو۔

تاہم ملکی معیشت کی سست روی کے بارے میں خدشات کی وجہ سے چین کے مرکزی بینک کو نومبر 2014 سے اب تک شرحِ سود میں چھ مرتبہ کمی کرنی پڑی ہے۔

چینی بازارِ حصص میں حالیہ مندی نے بھی دنیا بھر کے بازارِ حصص میں کھلبلی مچا دی ہے جہاں اب چین کی معاشی مضبوطی کے بارے میں خدشات سر اٹھانے لگے ہیں۔

خیال رہے کہ رواں برس کے پہلے ہی ہفتے میں چینی بازار حصص میں سات فیصد تک گراوٹ کے بعد حصص کی خرید و فروخت کا عمل معطل کرنا پڑا تھا۔

چین کے مرکزی بینک کی جانب سے ملکی کرنسی یوان کی قدر میں کمی کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بعد سرمایہ کار پریشان ہیں۔

ادھر چین کی سکیورٹی ریگولیٹری کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ بڑے شیئر ہولڈرز نو جنوری سے تین ماہ تک کمپنی کے شیئرز ایک فیصد سے زیادہ نہیں فروخت کر سکتے۔

چین نے اپنی کرنسی یوان کی قدر میں جو کمی کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے سرمایہ کاروں میں اس بات کا خوف ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت توقع سے زیادہ سست روی کا شکار ہوسکتی ہے اور اس سے علاقے میں کرنسی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close