دنیا

سدرة المنتہیٰ کی بلندیوں تک کاسفر، شب معراج آج منائی جائیگی

حرم شریف مکہ سے مسجد اقصٰی کی صفوں تک اور آسمانوں کی بلندیوں تک محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر اور انسان کی معراج ہے، یہ امت محمدیہ کا اعزاز ہے۔ ملک بھر میں شب معراج آج عقیدت و احترام سے منائی جائیگی۔

ماہ رجب کی ستائیسویں شب جب ساتوں آسمانوں سے سدرة المنتہیٰ کی بلندیوں تک رب کائنات نے رسول رحمت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک اور وہاں سے قابہ قوسین کی انتہاؤں تک معراج سے سرفراز کیا۔

اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ سلام ہزار ہا فرشتوں کے ہمراہ براق کی سواری لیے حاضررسول ہوئے، عرض کیا یا رسول آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے، سفر شروع ہوا تو کائنات درود سلام کی صداؤں سے گونجنے لگی۔

آپ نے مسجد اقصٰی میں انبیائے کرام کی امامت فرمائی، انبیاء سے ملاقاتیں کیں، نماز کی فرضیت کا حکم ہوا اور دیگراحکامات ملے، رب کائنات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوامعراج الٰہی کے بارے میں اس پر اتفاق رائے ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے لیکن اس کی صحیح تاریخ اور مقام کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ واقعہ ربیع الاول کے مہینے میں پیش آیا لیکن زیادہ مستند روایت یہ ہے کہ معراج 27 رجب کی شب ہوئی۔ اسی طرح اس مقام کے بارے میں بھی جہاں سے حضوؐر سفر معراج پر روانہ ہوئے دو مختلف روایتیں ہیں۔ پہلی روایت یہ ہے کہ آپؐ کعبہ سے متصل شمال میں کھلی جگہ پر مصروف خواب تھے کہ معراج حاصل ہوئی۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ آنحضرتؐ اپنی عم زاد بہن ام ہانی کے گھر پر بیداری اور خواب کی درمیانی حالت میں تھے کہ گھر کی چھت شق ہوئی اور حضرت جبریل ؑ بعض دوسرے فرشتوں کے ہمراہ تشریف لائے اور آپؐ کو اٹھا کر لے گئے۔ حضرت جبریل ؑ سب سے پہلے آپؐ کو چاہِ زم زم کے پاس لے گئے۔ سینہ مبارک کو چاک کیا اس میں سے قلبِ اطہر نکالا اسے زم زم کے پانی سے دھویا۔ پھر آپؐ کے قلب کو ایمان و حکمت سے بھر دیا اور دل دوبارہ اصل جگہ پر رکھ کر سینہ برابر کر دیا۔ شقِ صدر کے اسی قسم کے واقعہ کی ایک روایت آپؐ کے بچپن کے بارے میں ملتی ہے لیکن ممتاز اور مستند علمائے اسلام کے ایک گروہ نے اس روایت کو قبول نہیں کیا ہے۔ اور یہ رائے ظاہر کی ہے کہ مستند روایات کے مطابق شقِ صدر کا واقعہ صرف ایک بار ہوا اور وہ معراج کے وقت ہوا۔ مفکر اسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ سینہ مبارک چاک کرنا، دل کو نکالنا پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر کے اصل جگہ پر رکھنا یہ سب تمثیلی انداز بیان ہے۔ حقیقت میں کیا ہوا؟ یہ نہ کہا جا سکتا ہے، نہ سمجھا جا سکتا ہے۔ تمثیلی پیرائے میں فقط یہ بتایا گیا ہے کہ حضوؐر کے قلب کو انوارِ الٰہیہ سے پُر کر دیا گیا تاکہ آپؐ میں اس سفر کے آئندہ مراحل اور مناظر کی استعداد پیدا ہو جائے۔ شقِ صدر کے بعد جبریل ؑ نے حضوؐر کی سواری کے لئے براق پیش کیا۔ بَرّاق، لفظ برق سے ماخوذ ہے۔ اس سواری کی رفتار بجلی کی مانند تیز تھی۔ اس لئے اسے براق کہا گیا۔ برق کی شرح رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے اور روایات میں کہا گیا ہے کہ براق ایسی تیز رفتار سواری تھی کہ جہاں حدِ نظر ختم ہوتی تھی وہاں اس کا پہلا قدم پڑتا تھا۔ حضوؐر براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے اور اس مقام پر اترے جس کو آج کل ’’بابِ محمدؐ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپؐ براق سے اتر کر مسجدِ اقصیٰ میں تشریف لے گئے۔یہاں تمام انبیاء اور ملائکہ نے استقبال کیا اور پھر افضل الانبیاء کی امامت میں تمام انبیاء اور ملائکہ نے دو رکعت نماز ادا کی۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور اکرمؐ نے سفر معراج سے واپس پر بیت المقدس میں انبیاء اور ملائکہ کو نماز پڑھائی۔ مسند احمد بن حنبل اور سیرت بن اسحاق کی روایت یہی ہے۔ بہرحال سفر معراج سے پہلے یا اس کے اختتام پر سرور کائناتؐ نے نماز پڑھائی۔ مسجد اقصیٰ سے باہر نکلے تو جبریل ؑ نے آپؐ کے سامنے دودھ اور شراب کے دو پیالے پیش کئے۔ آپؐ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ اس پر جبریل ؑ نے کہا کہ ’’آپؐ نے فطرت کو اختیار کیا‘‘۔ زمین سے آسمان تک سفر حضوؐر نے جبریل ؑ کی معیت میں زمین سے آسمان تک براق پر سفر کیا۔ بعض روایات میں ہے کہ براق کو تو آپؐ نے بیت المقدس ہی میں چھوڑ دیا اور آسمان سے ایک مرصع سیڑھی نمودار ہوئی تھی۔ آپؐ اس کے ذریعہ حضرت جبریل ؑ کے ساتھ آسمان پر گئے۔ اس زینے کے بارے میں جو روایات ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا’’وہ زینہ جس کے ذریعے بنی آدم کی روحیں بعدازمرگ چڑھتی ہیں اور اس زینے سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز مخلوق کی نظر سے نہ گزری ہو گی اور میرے رفیقِ سفر جبریل ؑ نے مجھ کو اس پر چڑھایا یہاں تک کہ میں آسمان کے دروازے تک پہنچ گیا‘‘۔ صحیح مسلم میں جو روایت ہے اس میں براق یا زینے کا کوئی ذکر نہیں صرف یہ ہے کہ ’’جبریل ؑ مجھ کو لے کر آسمان پر گئے‘‘۔ جب حضوؐر پہلے آسمان پر پہنچے تو دیکھا ایک بزرگ دائیں جانب دیکھتے تو ہنستے، بائیں جانب دیکھتے تو روتے اور حضوؐر کو دیکھ کر فرمایا’’مرحبا!مرحبا! اے فرزند صالح مرحبا!‘‘ فرشتوں نے تعارف کرایا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں۔ ان کی دائیں جانب اہل جنت ہیں۔ بائیں طرف اہل دوزخ۔ پہلے آسمان پر حضوؐر نے نہرِ کوثر بھی دیکھی جس کے کناروں پر جواہر کے محل بنے ہوئے تھے، اور جس کی مٹی مشک کی طرح خوشبودار تھی۔ یہ نہر کوثر اللہ نے آپؐ کے لئے مخصوص کر رکھی ہے۔ آپؐ نے کہا کہ اس کا پانی دودھ سے زیادہ مفید تھا، اور میں نے نہر کوثر کا پانی پیا۔ دوسرے آسمان پر حضوؐر کی ملاقات حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے ہوئی۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسفؑ حضوؐر سے ملے۔ چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ نے آپؐ سے بات چیت کی۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام ملے۔ انہوں نے حضورؐ سے کہا ’’آپ کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ جنت میں جائیں گے‘‘۔ ساتویں آسمان پر سرورکائناتؐ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔ ساتویں آسمان کے بعد آپؐ کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ پھر یہاں سے آگے بڑھ کر سرور کونین سدرۃ المنتہیٰ (انتہاء کی بیری کا درخت) پر پہنچے۔ یہاں جبریل ؑ اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے اور کہا کہ اب اس مقام سے آگے جانا میری طاقت سے باہر ہے۔ آپؐ تنہا بڑھیے۔ سدرۃ المنتہیٰ پر امر الٰہی کا پرتو تھا۔ وہ جب اس درخت پر چھا گیا تو اس کی ہیئت بدل گئی اور اس میں انوارِ الٰہی نے حسن کی وہ شان پیدا کی کہ اس کا بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ درخت فرشتوں کی آخری حد ہے اس سے آگے وہ جا نہیں سکتے۔ اس لئے اسے منتہیٰ کہا گیا۔ یہاں سے حضوؐر حجابات و کیفیات کی منازل سے گزر کر خالق سے ہم کلام ہوئے اور نورالٰہی کو دیکھا۔ اس سے باتیں کیں۔ بارگاہِ رب العزت سے اس موقع پر حضوؐر کو عطیات مرحمت کئے گئے۔ ایک سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں جن میں اسلام کے رہنما اصول بیان کئے گئے تھے جو اسلامی معاشرہ کے لئے ضروری ہیں۔ ساتھ ہی اس میں یہ خوشخبری تھی کہ اب آپؐ کی ابتلا کا دور ختم ہو گیا۔ آپؐ نئے دور اور نئے معاشرے کی بنیاد رکھیں گے۔ دوسری نعمت یہ عطا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیاکہ امت محمدیہ کے وہ سب لوگ جو شرک نہیں کریں گے آخر کار بخشے جائیں گے۔ تیسری نعمت نماز پنجگانہ کی فرضیت ہے جو پہلے تو پچاس فرض کی گئی تھیں لیکن حضوؐر کی درخواست پر پانچ کر دی گئیں اور ثواب پچاس ہی کا رکھا گیا۔آنحضرتؐ نے معراج سے واپسی کے بعد اُمّ ہانیؓ سے اس کا تذکرہ فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ آپ قریش سے اس کا ذکر نہ کریں۔ وہ مذاق اڑائیں گے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا’’ میں ضرور ان سے یہ تذکرہ کروں گا۔ میرا رب سچا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ سچا ہے‘‘۔ اور جب حضوؐر نے معراج کا تذکرہ قریش سے کیا تو وہ ہنسنے لگے اور مذاق کرنے لگے۔ بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ کچھ لوگ جو مسلمان ہو گئے تھے مگر ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں ہوا تھا وہ بھی یہ سن کر مرتد ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ سے جب کہا گیا لو دیکھو تمہارے محمدؐ کہہ رہے ہیں کہ وہ رات ہی رات میں بیت المقدس بھی ہو آئے ہیں تو انہوں نے کہا ’’اگر محمدؐ کہتے ہیں تو یہ ٹھیک ہے۔ میں تو اس سے بھی زیادہ پر ایمان رکھتا ہوں کہ فرشتے ان کے پاس آتے ہیں‘‘۔ اسی لئے حضرت ابوبکرؓ کو ’’صدیق‘‘ کہا گیا۔ مشاہداتِ معراج کتب احادیث میں بہت سی روایات ملتی ہیں کہ حضوراکرمؐ نے معراج کے سفر میں آسمانوں پر حیرت انگیز مناظر دیکھے مثلاً رسول ؐ اللہ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے بدن کا گوشت کاٹ کا ٹ کر انہیں کھلایا جا رہا تھا۔ یہ غیبت کرنے والے اور چغل خور تھے۔ پھر ایسے لوگوں کو دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے تھے۔ جب یہ کٹ چکتے تو پھر ویسے ہی ہو جاتے، جیسے پہلے تھے۔ حضوؐر کو بتایا گیا یہ آپؐ کی امت کے وہ خطیب، واعظ اور عالم ہیں جو دوسروں کو لمبی چوڑی نصیحت کرتے تھے مگر خود ان پر عمل نہیں کرتے تھے۔ حضوؐر نے ایک جگہ چھوٹا سا پتھر دیکھا جس سے ایک بڑا بیل پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہ بیل اس پتھر میں واپس جانا چاہتا ہے مگر جا نہیں سکتا۔ آپؐ کو بتایا گیا یہ اس شخص کا حال ہے جو بری بات منہ سے نکال کر شرمندہ ہوتا ہے لیکن اس کو واپس لینے پر قدرت نہیں رکھتا۔ حضوؐر نے کچھ لوگوں کو سڑا ہوا گوشت کھاتے دیکھا۔ یہ ناجائز دولت کمانے والے افراد تھے۔ سود خوروں کو دیکھا کہ ان کے شکموں میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو باہر سے دکھائی دے رہے تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضوؐر نے سود خور کو اس حال میں دیکھا کہ وہ خون کی ندی میں تیر رہا ہے، ساحل پر پہنچنا چاہتا ہے لیکن لوگ اسے پتھر مارتے ہیں اور وہ پھر وہیں واپس پہنچ جاتا ہے جہاں سے تیرنا شروع کیا تھا۔ اس طرح خون کی ندی سے باہر نہیں نکل سکتا۔ زنا کار عورتوں کو حضوؐر نے اس عالم میں دیکھا کہ اپنی پستانوں سے بندھی ہوئی لٹک رہی ہیں۔ یہ سارے مشاہدات جو برائی اور برے لوگوں کے بارے میں تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بہ قول تمثیلی پیرائے اور انداز بیان میں کہے گئے ہیں۔ ان سے مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ برائی اور برے لوگوں کا انجام بد ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close