دنیا

افغان صدر نے پاکستانی وزیراعظم کا فون سننے سے انکار کردیا

کابل: افغان صدراشرف غنی نے کابل میں خودکش دھماکوں میں 125افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا فون سننے سے انکا رکردیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ہمسایہ مسلم ممالک کے مابین تعلقات مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے ۔یادرہے افغانستان نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دہشتگردی کی کاروائیوں کے الزامات پاکستان پر عائد کردئیے ، جبکہ پاکستان نے ان الزامات کو یکسرمسترد کردیا ۔
انتہائی اہم ذرائع کے مطابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے افغان صدر اشرف کے ساتھ تعزیتی فون کا ل کی مگر افغان صدر نے وزیر اعظم کا فون سننے سے انکار کردیا ، دوسری جانب دفتر خارجہ نے تحریک طالبان افغانستان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے 27 شدت پسندوں کو افغانستان کے حوالے کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ پاکستان تحریک طالبان افغانستان اور حقانی نیٹ ورک کے مشتبہ عناصر کو افغانستان کے خلاف کسی بھی دہشت گردی کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال سے روکنے کی کوششں کر رہا ہے اس ضمن میں نومبر 2017ء میں تحریک طالبان افغانستان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلقات کے شبہ میں 27 افراد کو افغانستان کے حوالے کیا گیا۔
ترجمان کا مزید کہنا تھاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اقتصادی طور پر 123 ارب امریکی ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا، دہشت گردی کے خلاف قربانیوں میں پاکستان کی افسران اور جوانوں کے حوالے سے شہادتوں کی شرح بلند ترین ہے جس میں پاکستان نے 75 ہزار شہری اور 6 ہزار جوانوں کی قربانیاں دی ہیں۔واضع رہے کہ مشتبہ افراد کی حوالگی گزشتہ سال نومبر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پہلے دورہ کابل کے چند ہفتوں کے اندر عمل میں آئی تھی تاہم افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے 27 افراد کی اس حوالگی کو ابھی تک صیغہ راز میں رکھا گیا تھا۔
دفتر خارجہ کے ٹوئٹ میں اس بات کی وضاحت موجود نہیں حکومت کو اس موقع پر یہ اعلان کرنے پر کس بات نے مجبور کیا تاہم اس صورت حال میں باوثوق ذرائع نے آن لائن کو بتایا کہ پاکستان کا یہ معلومات جاری کرنے کا مقصد اس تاثر کو زائل کرنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا بھر پور کردار ادا نہیں کر رہا۔ایک عہدے دار نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ افغانستان جانتا ہے کہ اس کی قیادت طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان کی کوششوں سے واقف ہے لیکن اس کے باوجود اس نے پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اگرچہ وزارت خارجہ نے شدت پسندوں کی حوالگی کی تصدیق کی ہے تاہم اس نے افغانستان کو دیے جانے والے افراد کی شناخت کے حوالے سے یا کوئی اور تفصیلات نہیں بتائیں۔
یہ بات بھی زیر غور رہے کہ کابل ماضی میں اسلام آباد سے پاکستان میں چھپے ہوئے عسکریت پسندوں کی حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ چند سال قبل پاکستان نے چند افغان طالبان کمانڈرز کو رہا کیا تھا تاکہ افغان امن مذاکرات کا عمل بحال کیا جاسکے تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ارکان کو براہ راست افغانستان منتقل کیا گیا ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں تشدد کی حالیہ لہر کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مستقبل قریب میں کسی قسم کے مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔افغان صدر اشرف غنی نے بھی امریکی صدر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا تھا کہ افغان طالبان کو جنگ سے شکست دینا ہو گی۔
دوسری جانب پاکستان کا نقطہ نظر مختلف ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ اس خونریز تنازع کا واحد پائیدار حل افغانستان کی زیر قیادت امن عمل میں ہے اور اس سلسلے میں پاکستان افغانستان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کیلئے تیار ہے البتہ افغان حکومت کا رویہ پاکستان کے ساتھ نامناسب ہے۔جس کے بعد دو ہمسایہ مسلمان ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کا خطرہ ہے۔واضع رہے کہ افغانستان کااعلی سطحی وفد پاکستان کی قیادت کے ساتھ مزاکرات کرنے کیلئے اسلام آباد میں موجود ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close