دنیا

فلوجہ: لڑائی شدت اختیار کر گئی، شہری آبادی کو جان کا خطرہ

اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے کو رپورٹیں موصول ہوئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ بھاری دہانے والے ہتھیاروں کی گولہ باری کے نتیجے میں سولین آبادی کا جانی نقصان بڑھتا جا رہا ہے، یا پھر ملبے تلے آکر وہ اپنے ہی گھروں میں ہلاک ہو رہے ہیں

واشنگٹن — 

ایسے میں جب داعش کے زیر تسلط فلوجہ شہر میں لڑائی سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، سولین آبادی کی ہلاکتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔

ناروے کی کونسل برائے مہاجرین سے تعلق رکھنے والے، ژاں اجلینڈ نے بتایا ہے کہ ’’فلوجہ میں انسانی جانیں ضائع ہونے کاسلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ گولیوں کے تبادلے کے دوران متعدد خاندان زد میں آتے جارہے ہیں، جس سے جان بچانا ممکن نہیں رہا‘‘۔

شہر کا قبضہ واپس لینے کے لیے عراقی افواج نے بڑی سطح کی کارروائی کی ہے۔

شہریوں کی ہلاکتیں

اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کو رپورٹیں موصول ہوئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ بھاری دہانے والے ہتھیاروں کی گولہ باری کے نتیجے میں سولین آبادی کا جانی نقصان بڑھتا جا رہا ہے، یا پھر ملبے تلے آکر وہ اپنے ہی گھروں میں ہلاک ہو رہے ہیں۔

عالمی ادارے کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان، ولیم اسپنڈلر نے بتایا ہے کہ ’’یہ رپورٹیں بھی ملی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اہل خانہ کے سینکڑوں افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے‘‘۔

گذشتہ ہفتے سے لڑائی سے بچنے کے لیے 625 خاندان نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

عراقی افواج مرد حضرات کو علیحدہ کھڑا کرتے ہیں، تاکہ اُن کی جانچ پڑتال ممکن ہو اس تشویش کی بنا پر بھاگ نکلنے والے کہیں دشمنوں کے ساتھی تو نہیں، چونکہ وہ دو سال تک داعش کے زیر تسلط علاقے میں رہتے رہے ہیں۔

اسپنڈلر کے الفاظ میں، ’’اندازاً 500 مردوں اور 12 برس کی عمر سے بڑے لڑکوں کو سکیورٹی کی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے، جس مرحلے میں پانچ سے سات دِن لگ سگتے ہیں‘‘۔

’وائس آف امریکہ‘ نے ایک مہاجر سے گفتگو کی ہے، جس نے اپنا نام ایاد بتایا۔ اُنھوں نے پڑتال کے عمل کے بارے میں بتایا۔

اُن کے بقول، ’’اُنھوں نے مجھ سے، حشد الشعبی اور عراقی فوج سے متعلق انٹرویو کیا‘‘۔ اُن کا اشارہ شیعہ ملیشیائوں کے جتھے سے تھا جو عراقی فوج کے ہمراہ لڑ رہی ہیں۔

ایاد نے مترجم کی معرفت ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا کہ ’’اُنھوں نے کہا کہ اگر تمہارا نام ہمارے ڈیٹابیس میں پایا گیا تو ہم تمہیں گولی مار دیں گے۔ اگر تم بے گناہ نکلے تو تم ہمارے ساتھ امن میں رہ سکتے ہو‘‘۔

داعش کے لڑاکوں کے خلاف صف آرائی میں حشد الشعبی نے اہم کردار ادا کیا ہے، اور اِن ایران نواز میلشیائوں کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ عراقی فوج سے بہتر تربیت یافتہ ہیں۔

تاہم، داعش کے خلاف لڑائی میں ٹھوس شیعہ موجودگی کے باعث دوسرے لوگ ناخوش ہیں، جن کے مضبوط ٹھکانے سنی اکثریت والے علاقوں میں ہیں۔ اس صورت حال کے نتیجے میں ملک میں پہلے سے موجود مسلک کی بنیاد پر تقسیم مزید بگڑ سکتی ہے۔

بغداد کے متعدد سنی کہتے ہیں کہ وہ شیعہ میلشیائوں کے خوف میں مبتلہ ہیں، جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ماضی میں اِن ملیشیائوں کے ہاتھوں حقوق کی خلاف ورزیاں درج کی ہیں۔

قانون ساز اور قومی سلامتی کے ایک سابق مشیر، موافق الربیع نے داعش کے خلاف لڑائی میں حشد کے کردار کا دفاع کیا ہے۔

ربیع نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’میرے خیال میں حشد الشعبی کو ہمارے مقبوضہ علاقوں کی آزادی میں اہم کردار دینا چاہیئے تھا، جو وہ ادا کر رہے ہیں۔‘‘

دولت اسلامیہ کے لیے داعش کا لفظ استعمال کرتے ہوئے، ربیع نے کہا کہ ’’داعش کے خلاف حشد الشعبی گوریلہ قسم کی لڑائی لڑ رہی ہے، جو روایتی انداز نہیں ہے جیسا کہ عراقی فوج نے اختیار کر رکھا ہے‘‘۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close