دنیا

دفاع کے شعبے میں 100 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت

انڈیا نے دفاع کے شعبے میں 100 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دے دی ہے جس سے حکومت کو امید ہے کہ ملک کے اندر فوجی ساز و سامان تیار کرنے کی کوششوں کو فروغ حاصل ہوگا۔

غیر ملکی سرمایہ کاری کی نئی پالیسی کے اعلان کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ انڈیا میں سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کر دی گئی ہیں جس سے لوگوں کو بڑی تعداد میں روزگار ملے گا۔

وفاقی حکومت نے اپنی ’میک ان انڈیا‘ یا ملک کے اندر ہی صنعتی پیداوار کو فروغ دینے کی پالیسی کے تحت یہ اقدامات کیے ہیں۔ اسحلہ درآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں انڈیا کا نام سرفہرست ہے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد نریندر مودی نے کہا تھا کہ ان کی حکومت فوجی ساز و سامان ملک کے اندر ہی تیار کرنے پر زور دے گی۔

وفاقی وزیر نرملا سیتارمن نے کہا کہ نئی پالیسی کے عمل میں آنے سے بڑی کمپنیاں جدید ٹیکنالوجی لے کر انڈیا آئیں گی۔

تجزیہ نگار پرنجوئے گہا ٹھاکرتا کے مطابق فی الحال دفاعی شعبے میں امریکی اور اسرائیل کی کمپنیاں اس پالیسی سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں لیکن معیشت پر اس کا کوئی بہت بڑا اثر نہیں پڑے گا۔

’میں نہیں سمجھتا کہ ان تبدیلیوں سےکوئی بہت بڑا فرق پڑے گا، یا بہت لوگوں کو نوکریاں ملیں گی ۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ سرمایہ کاری خود حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے کی جاتی ہے۔ لیکن خود حکومت کی سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے ۔۔۔ لوگ بازار میں پیسہ نہیں لگا رہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔‘

شہری ہوابازی کے شعبے میں صرف ائرپورٹس میں سرمایہ کاری کی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ سنگل برانڈ رٹیل کی بھی اجازت دی گئی ہے، یعنی ایک ہی برانڈ کے شو روم کھولے جاسکیں گے۔ حکومت نے سنگل برانڈ رٹیل کی کچھ شرائط میں بھی نرمی کی ہے جس سے آئکیا اور ایپل جیسی کمپنیوں کو فائدہ ہوگا۔ سابقہ پالیسی کے تحت سنگل برانڈ رٹیل کی اجازت صرف اس شرط پر دی جاتی تھی کہ کمپنی 30 فیصد سامان ملک کے اندر ہی بنائے یا خریدے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ دو سال میں وہ تقریباً 55 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو کانگریس کے دور اقتدار سے کہیں زیادہ ہے۔

نرملا سیتارمن نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ اچانک نئی پالیسی کے اعلان کا تعلق ریزرو بینک کے گورنر رگھورام راجن کے اس فیصلے سے ہے کہ ستمبر میں اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد انھیں دوبارہ گورنر بننے میں دلچسپی نہیں ہے۔

رگھورام راجن نے گذشتہ ہفتے یہ اعلان کیا تھا۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منفی پیغام جا سکتا ہے۔

راجن پر بی جی پی کے ایک سینیئر رہنما سبرامنیم سوامی مسلسل تنقید کر رہے تھے اور عام تاثر یہ تھا کہ وزیر خزانہ اور راجن کے درمیان اس بارے میں اختلافات تھے کہ مالی پالیسی کو کیا سمت اختیار کرنی چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close