دنیا

قذافی کی سنہری پستول کہاں گئی

جب لیبیا میں باغیوں نے معمر قذافی کی موت کا جشن منایا تو ان کی سونے کا پانی چڑھی پستول فتح کی علامت کے طور پر سامنے آئی۔میں نے دیکھا کہ وہ اُن سب کے ہاتھوں میں گھوم رہی تھی۔ چار سال بعد میں اُس شخص کی تلاش میں لیبیا پہنچا جس کے پاس یہ پستول موجود تھی۔

میرے موبائل فون میں ایک تصویر موجود ہے جو میں 20 اکتوبر سنہ 2011 کو لیبیا میں کھینچی تھی۔ اس تصویر میں نیلی قمیض اور بیس بال کی ٹوپی پہنے ایک نوجوان آدمی نظر آرہا ہے جسے سرت کے علاقے میں اس کے ساتھیوں نے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔

یہ لوگ مصراتہ سے تعلق رکھنے والے باغی جنگجو ہیں جنھوں نے کرنل قذافی کو پکڑنے کے بعد اُنھیں ہلاک کیا تھا۔ تصویر میں آپ اُن سب کے ہاتھوں میں گھومتی سُنہرے رنگ کی پستول دیکھ سکتے ہیں۔

یہ کرنل قذافی کی ذاتی پستول تھی مگر اس لمحے سے وہ باغیوں کی فتح اور لیبیا میں اقتدار کی منتقلی کی ایک علامت بن گئی۔

چار سال بعد دیکھیں تو، ملک بحرانی صورتحال میں ہے۔ حریف حکومتیں جنھیں مسلح گروپوں کی حمایت حاصل ہے ملک پر قبضہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لیبیا مشرق بمقابلہ مغرب، اسلام بمقابلہ سکیولرازم جیسے نظریاتی اور جغرافیائی خطوط میں بٹا ہوا ہے

خود کو دولتِ اسلامیہ کہلوانے والا گروہ اس افراتفری کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور کرنل قذافی کے آبائی علاقے سرت پر قبضہ کر چکا ہے۔

اسی شورش کے دوران میں واپس مصراتہ آیا جو طرابلس سے 200 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ شہر اب ایک نیم خود مختار ریاست کے طور پر کام کررہا ہے۔

میں سُنہری پستول والے شخص کو تلاش کررہا ہوں۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ اُن کے اور اُن کے دیگر ساتھی جنگجوؤں کے ساتھ کیا ہوا جنھوں نے کرنل قذافی کو گرفتار کیا تھا۔

میں نے اس علاقے کا پہلا دورہ اپنے ایک پُرانے جاننے والے انور سوان سے ملنے کے لیے کیا۔ انقلابی دور میں وہ مصراتہ کے علاقے میں ایک اہم شخصیت تھے۔ جب قذافی کو قتل کیا گیا تو جنگجوؤں نے اُن کی لاش انور کے پاس لائی اور انور نے قذافی کی میت ایک بڑے ٹھنڈے گوشت رکھنے والے لاکر میں عوامی نمائش کے لیے رکھ دی۔

ہم رات کے وقت وہاں پہنچے۔ وہاں بارش ہورہی تھی اور کافی ٹھنڈ تھی۔ وہاں کی بجلی کاٹ دی گئی ہے اس لیے ہم اندھیرے میں ایک انگاورں والی انگیٹھی کے گرد دُبک کر بیٹھے گرم میٹھی چائے پی رہے تھے۔

ہم پُرانی تصاویر کو دیکھتے ہوئے اچھے دنوں کو یاد کر رہے تھے تو انور نے کہا ’حالات سازگار نہیں ہیں۔‘

انور نے مزید کہا ’انھوں نے ایک سانپ، قذافی کا سر کاٹ دیا۔ لیکن اب سینکڑوں سانپ ہیں جنھوں نے قذافی کی جگہ لے لی ہے۔ ہم اب بھی اسی چیز یعنی لیبیا کے لیے ایک حکمران ڈھونڈنے کے لیے لڑرہے ہیں۔ لیکن یہاں ہر کوئی اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہاں ہر طرف بندوقیں ہی بندوقیں ہیں۔ کیا صورتحال ہے

میں نے انور کو بتایا کہ میں ایک خاص پستول: قذافی کی سُنہرے پستول والے ایک شخص کو تلاش کررہا ہوں۔

انھوں نے قذافی کو پکڑنے والے جنگجوؤں میں سے ایک عُمران شعبان کا نام لیا۔ اس موقع کی ایک خراب حالت میں موجود ویڈیو فوٹیج جو باغیوں کے موبائل فون پر بنائی گئی تھی، اُس میں شعبان کی آواز سُنی جا سکتی ہے جب وہ ہجوم کو کرنل قذافی کو قتل کرنے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس روز وہاں موجود ایک اور شخص ایمن المانی نے مجھے اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی ایک ویڈیو فوٹیج دکھائی جو اس سے قبل عوام کو نہیں دکھائی گئی۔ اس میں آمر کے آخری لمحات کو جن میں اُن کا خون بہہ رہا ہے اور وہ فریاد کررہے ہیں، زیادہ بہتر طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

ایمن کا کہنا ہے ’وہ اسی قابل تھے۔ اسلام ہمیں کسی قیدی کے ساتھ بدسلوکی کرنے یا کینہ نہ پالنے کا سبق دیتا ہے۔ لیکن لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور کوئی اُنھیں نہیں روک سکتا تھا۔

ُعمران شعبان ایک ہیرو بن گیا۔ اُس کی اس سُنہرے پستول کے ساتھ تصویربنائی گئی۔ اور وہ اس بات کی مجسم حقیقت بن کر اُبھرا کہ مہینوں سے جاری تلخ لڑائی کے بعد لیبیا والوں کے زخم مندمل ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔‘

سنہ 2012 میں، شعبان کو قذافی کے وفاداروں نے بنی ولید کے علاقے سے پکڑ لیا تھا۔ انھوں نے اُنھیں ایذا پہنچائی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مصراتہ والوں نے اُن کی رہائی کے لیے مذاکرات کیے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک فرانسیسی ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

انور سوان نے مجھے بتایا کہ جب شعبان کو لے جایا گیا تو شاید اُن کی پستول بھی اُن کے پاس تھی۔ ہوسکتا ہے کہ اب وہ قذافی کے وفاداروں کے پاس ہو

پھر میں نے اُنھیں اور اُن کے ساتھیوں کو اُس بیس بال کیپ والے آدمی کی تصویر دکھائی۔

’محمد البیبی‘ کسی نے اُن کا نام پکارا۔ یہ بلاشبہ وہی نام تھا جو میں نے سنہ 2011 میں لندن میں فائل کی جانے والی ایک رپورٹ میں استعمال کیا تھا۔

انور کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے محمد کے ساتھ کیا ہوا۔ لیکن اُنھوں نے محمد کو ڈھونڈنے کا وعدہ کیا۔

ایک اور شخص جو اس پستول کو استعمال کر چکے ہیں کا خیال تھا کہ پستول اب بھی اسی شہر میں موجود ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ اب کس کے پاس ہے۔

بالاخر مجھے محمد البیبی کا ایک فون نمبر مل گیا اور انھوں نے اپنے گھر میں جو شہر کے مرکز میں واقع ہے، مجھ سے ملاقات کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔

ہم نیچے بیٹھ گئے اور میں نے اُنھیں اُن کی اس سنہری پستول کے ہمراہ تصویر دکھائی۔

وہ مُسکرائے ’مجھے یاد ہے، میں اُس وقت 17 سال کا تھا!‘

انھوں نے مجھے بتایا کہ اُنھیں قذافی کی اس پستول کے لائسنس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ اُنھیں یہ پستول ایک جگہ گری ہوئی ملی جہاں قریب ہی کرنل قذافی کو گرفتار کیا گیا تھا۔

لیکن اُس وقت محمد کے پاس وہ پستول دیکھ کر دیگر باغیوں کو یہ لگا کہ محمد نے ہی کرنل قذافی کو ہلاک کیا ہے۔ وہ اس انقلاب کے حادثاتی ہیرو بن گئے۔

میں نے اُن سے پوچھا ’اس پستول کا کیا بنا؟‘ انھوں نے بتایا کہ وہ اب بھی اُن کے پاس ہے۔ انھوں نے وہ پستول مجھے دکھائی۔ یہ ایک نائن ایم ایم براؤزنگ دستی پستول ہے جس پر سونے سے ملمع کاری کی گئی ہے اور اس پر پھول کندہ ہیں۔

محمد کا خیال ہے کہ یہ قذافی کے ایک بیٹے کی جانب سے انھیں دیا گیا تحفہ ہے۔ محمد البیبی کی پستول کو لہراتی ہوئی تصاویر اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ اسی پستول نے قذافی کے دور کو حتمی اختتام تک پہنچایا۔

لیکن محمد اپنے اس انعام کے لیے موجود خطرے سے چوکنا ہیں۔ اب بھی وہاں قذافی کے وفادار موجود ہیں جن کی جانب سے اُنھیں مارنے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔

محمد نے کہا ’براہِ مہربانی دنیا کو بتائیں کہ جس نے کرنل قذافی کو مارا وہ میں نہیں تھا ۔‘

کیا انھوں نے کبھی تصور کیا ہوگا کہ آج سے پانچ سال قبل، اُن سمیت لیبیا حالتِ جنگ میں ہوگا؟

انھوں نے کہا ’نہیں میں نے یہ تصور نہیں کیا تھا۔ مجھے اس بات کا بہت دُکھ ہے۔ جب میں لیبیا کے لوگوں کو اپنے ہی لوگوں کو قتل کرتے دیکھتا ہوں تو بہت بُرا لگتا ہے۔ ہر کوئی قذافی جیسا بننا چاہتا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close