دنیا

چیبوک سے اغوا ہونے والی مزید طالبات رہا

ان لڑکیوں کو شدت پسند جنگجو گروپ بوکو حرام نے اغوا کیا تھا۔

دارالحکومت ابوجا میں منعقدہ ملن کی اس جذباتی تقریب میں ایک لڑکی نے کہا کہ انھیں 40 دنوں تک بغیر کھانے کے گزارہ کرنا پڑا اور ایک بار تو وہ موت سے بال بال بچیں۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان لڑکیوں کی رہائی کس طرح ممکن ہوئي لیکن حکام کا کہنا ہے کہ مزید لڑکیوں کی رہائی کے لیے بات چیت جاری ہے۔

خیال رہے کہ ڈھائی سال قبل اپریل سنہ 2014 میں پونے تین سو (276) لڑکیوں کو اغوا کیا گیا تھا جن میں سے ابھی تک 197 لڑکیاں لا پتہ ہیں۔

ابوجا میں منعقدہ ایک مسیحی تقریب میں ایک لڑکی نے بتایا: ‘جب ایک طیارے سے بم گرایا گیا تو ہم اس وقت جنگلوں میں تھے اور ہم بچ گئے۔’

انھوں نے مقامی ہوزا زبان میں بتایا: ‘ہمیں ایک مہینے اور دس دنوں تک کوئی کھانا نہیں ملا لیکن ہمیں موت بھی نہیں آئی۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔’

ایک دوسری لڑکی نے کہا: ‘ہم نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ہم یہ دن دیکھ پائيں، خدا کی مدد سے ہم غلامی سے نکل گئے۔’

گذشتہ جمعرات کو آزاد ہونے والی لڑکیوں کے اہل خانہ ان سے ملنے کے لیے بے تاب تھے۔

ایک شخص نے کہا: ‘ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم اپنی بیٹی کو دوبارہ دیکھ پائیں گے۔ جو لڑکیاں ابھی تک وہاں ہیں خدا جلد انھیں ان کے والدین سے ملائے۔’

نائجیریا کے حکام نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ پکڑے جانے والے بوکو حرام کے جنگجوؤں کے بدلے ان لڑکیوں کو رہائی ملی ہے۔ تاہم ایک سکیورٹی افسر نےبتایا کہ چار کمانڈر رہا کیے گئے ہیںسوئس حکومت نے نائجیرین حکومت کی جانب سے لاکھوں ڈالر میں خطیر تاوان ادا کیا ہے۔

نائیجیریا کے وزیر اطلاعات لائی محمد نے کہا کہ جمعرات کو ہونے والی رہائي باقی تمام لڑکیوں کی رہائی کے متعلق ‘پہلا قدم’ تھا۔

انھوں نے اتوار کو صحافیوں کو بتایا کہ ‘اب ہم بات چیت کے دوسرے مرحلے میں ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ بہت نازک معاملہ ہے۔ ہم نے رازداری کے تعلق سے چند وعدے کیے ہیں اور ہم ان کی پاسداری کریں گے۔’

خیال رہے کہ چند لڑکیاں تو اغوا کے وقت ہی گاڑیوں سے کود کر بھاگ گئی تھیں اور مجموعی طور پر 219 لڑکیوں کو قبضے میں لیا گیا تھا لیکن بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ بعض لڑکیاں قید میں ہلاک بھی ہو گئی ہیں۔

ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گيا ہے کہ دو سال کی گمشدگی اور بوکو حرام کے بعض جنگجوؤں سے شادی کے بعد بعض لڑکیاں اب اپنے گھروں کو واپس نہیں جانا چاہتیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close