دنیا

انڈیا میں خواجہ سراؤں کے لیے پہلا رہائشی تعلیمی ادارہ

انڈیا کے جنوبی شہر کوچی میں خواجہ سراؤں کے لیے پہلا رہائشی سکول بنایا گیا ہے تاکہ ان نوجوانوں کو تعلیم مکمل کرنے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔

انڈیا میں خواجہ سراؤں کو تعصبات اور دشمنانہ رویے کا سامنا رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان میں سے نصف اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے ہیں۔

سہج انٹرنیشنل نامی یہ سکول اپنی نوعیت کا انڈیا میں پہلا سکول ہے۔ اس میں 25 سے 50 سال کی عمر کے دس طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا۔

انھیں انڈیا میں دسویں اور 12ویں جماعت کے بورڈ امتحانات کے لیے تیاری کروائی جائے گی۔ خیال رہے کہ میٹرک کے طلبا کی اوسطً عمر 15 سے 19 سال ہوتی ہے۔

ان سکول میں بعض پیشہ ورانہ کورسز بھی نصاب میں شامل ہوں گے۔ اس سکول کی سربراہ اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی وجے راج ملیکا نے بی بی سی کو بتایا ’سکول کا مقصد خواجہ سراؤں کو اچھی نوکری حاصل کرنے اور باوقار زندگی گزارنے کا اہل بنانا ہے۔‘

ابھی تک ہم لوگوں نے 14 عرضیوں میں سے چھ طلبہ کو داخلہ دیا ہے اور یہ سارے زنانہ صفت رکھنے والے خواجہ سرا ہیں۔ دس سیٹوں میں سے ایک ہم نے مردانہ صفت والے خواجہ سرا کے لیے اور ایک نشت معذور کے لیے مختص کر رکھی ہے۔‘

یہ سکول انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں بنایا گیا ہے اور یہ پہلی ریاست ہے جس نے خواجہ سراؤں کے بارے میں کوئی پالیسی بنائی ہے۔ پالیسی کے تحت انھیں تعلیم کا حق حاصل ہے اور انھیں سرکاری ہسپتال میں صنف کو درست کرنے کی مفت سہولت فراہم ہے۔

خواجہ سراؤں کے لیے قائم اس مرکز کے منتظمین کا کہنا ہے کہ تمام طلبہ کے کھانے، رہنے اور مفت تعلیم کا بندوبست کیا گیا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس سکول میں اساتذہ بھی خواجہ سرا ہیں۔ یہ قدم طلبہ کی حفاظت اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اٹھایا گيا ہے۔

یہ فیصلہ انڈیا کی پہلی خواجہ سرا کالج پرنسپل منابی بندھوپادھیائے کے استعفے کے بعد کیا گيا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بعض طلبہ اور ساتھی اساتذہ نے ان کی صنفی شناخت کو مجروح کیا۔

انڈیا میں تقریباً 20 لاکھ خواجہ سرا ہیں اور سنہ 2014 میں انڈیا کی عدالت عظمیٰ نے قانون کی نظر میں ان کے مساوی حقوق کو تسلیم کیا تھا۔

ان تمام اقدامات کے باجود ملک میں اُن کا استحصال اور ان کے ساتھ بدسلوکی جاری ہے۔ بہت سے خواجہ سراؤں کو ان کے گھروں سے نکال دیا جاتا ہے، انھیں ملازمتوں پر نہیں رکھا جاتا ہے اور انھیں جنسی کاموں، بھیک مانگنے یا شادیوں میں رقص کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ اس ادارے کے لیے جگہ کا تلاش کرنا بھی بہت مشکل امر تھا کیونکہ کوئی بھی اس کے لیے تیار نظر نہیں آتا تھا۔

مسز ملیکا نے بتایا کہ ’ہم نے 700 افراد اور 51 گھروں سے رابطہ کیا لیکن سب نے ہمیں انکار کردیا۔ انھیں ایسا لگتا تھا کہ ہم کسی قحبہ خانے کے لیے جگہ تلاش کر رہے ہیں۔‘

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close