بلاگ

کہتی تھی میرا ٹائم آ گیا ہے ترقی کا

سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنے والی قندیل بلوچ نے اپنے کام کے حوالے سے خود پر ہونے والی تنقید کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کسی کی پرواہ نہ کی۔ پیشہ ورانہ زندگی سے ہٹ کر ان کی گھریلو زندگی ذاتی جدوجہد کی ایک الگ داستان سناتی ہے۔

فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کے والدین ملتان میں متوسط طبقے کے ایک رہائشی علاقے میں واقع بوسیدہ مکان میں رہائش پذیر ہیں۔

مکان کے صحن میں چارپائی پر بیٹھی قندیل کی والدہ انور بی بی بتاتی ہیں ’ہم بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈیرہ غازی کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ قندیل کے باپ کا ایکسیڈنٹ میں پاؤں کٹ گیا تھا۔ وہ ہمیں یہاں لے کر آئی تاکہ علاج ہو سکے، ہمارے حالات بہتر ہو سکیں۔‘

اب قندیل کے وہی والد دن رات بیساکھیوں کے سہارے پولیس تھانوں کا چکر لگا رہے ہیں تاکہ بیٹی کے قتل میں ملوث اپنے ہی بیٹے کو سزا دلوا سکیں۔

’جب وہ پیسے بھیجتی تھی، تو یہ سب ہمارے پاس بھاگے بھاگے آتے تھے۔ وسیم مجھے جیل میں ملنے کی کوشش کرتا ہے تو میں کہتا ہوں شکل نہ دکھاؤ مجھے اپنی، کیسی سفاکی سے بہن کو مار ڈالا۔‘

قندیل کے والدین کے مطابق جن دنوں قندیل عید کی چھٹیوں میں گھر والوں سے ملنے آئی تھی ان کا بیٹا وسیم کسی بہانے سے گھر ٹھہرنے آیا۔

قندیل کے قتل کی رات والدین کو دودھ میں نشہ آور دوائی پلائی گئی اور ان کے مطابق ’پھر وسیم نے اپنے ایک دوست کو بلایا تاکہ قندیل کو قتل کیا جا سکے۔‘

اپنی لاڈلی بیٹی کے آخری لمحات کے بارے میں تصور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے محمد عظیم کی آواز غصے اور دکھ سے لرز جاتی ہے۔ ’ہم ایسے بےہوش پڑے تھے جیسے مرگئے ہوں۔ شاید وہ اماں کو بلاتی ہوگی، ابا کو بھی بلایا ہو گا۔۔۔ ہمیں پتہ بھی نہیں چلا، کیا ہمیں اس کا درد نہیں، اس کی تکلیف نہیں؟‘

ڈیرہ غازی خان کے ایک قدامت پسند دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی قندیل کا سفر بہت لمبا تھا۔

ملتان کے ایک فوٹوگرافر کے مطابق انھوں نے ماڈلنگ کا کریئر یہیں سے شروع کرنے کی کوشش کی تھی۔ ’میں نے ہی ان کا پہلا فوٹو شوٹ کیا تھا لیکن کام نہ بنا۔ پھر وہ شہر چھوڑ کے چلی گئیں، پھر فیس بک پہ ان کی ویڈیوز آنا شروع ہوگئیں۔‘

تاہم ملتان میں ان کے محلے دار کہتے ہیں کہ وہ انھیں نہیں جانتے تھے۔ ہر وقت عوام کی نظروں میں رہنے والی قندیل شاید جب بھی گھر آتیں، تو خاموشی سے اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھیں۔

قندیل کی ایک ہمسائی نے بتایا ’ہمیں تو قندیل بلوچ کا ٹی وی سے حال ہی میں پتہ چلا جب مفتی عبدالقوی والا قصہ ہوا، پھر اس کا شوہر دکھایا گیا۔ جب یہاں سے لڑکی کی میت اٹھی تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں قندیل بلوچ رہتی تھی۔

قندیل کی والدہ انور بی بی نے بتایا ’وہ سکون کی تلاش میں میرے پاس آئی تھی۔ کہتی تھی امی میں تھک گئی ہوں، مقدموں سے ، لڑائی جھگڑے سے، لیکن دیکھنا میرا ٹائم آ گیا ہے۔ سب کہتے ہیں قندیل بدنام ہے لیکن میں سب کو دکھا دوں گی کہ شاہ صدرالدین سے نکلی ہوئی ایک معمولی سی لڑکی کیا کر سکتی ہے۔‘

ایک ایسے نظام میں جہاں اکثر لوگ جس معاشرتی طبقے میں پیدا ہوں وہاں قید رہنا ان کی مجبوری بن جاتا ہے، قندیل بلوچ انفرادی آزادی کا ایک خواب دیکھ رہی تھیں۔

جس خاتون کو معاشرہ اس کی سوشل میڈیا شخصیت کی بنیاد پر ہی جانچتا، پرکھتا رہا اور اکثر کوستا بھی رہا، وہ شاید اس معاشرے کو اس کی گہرائیوں تک جانچ چکی تھی۔

مجھ سے بات کرتے کرتے انور بی بی اچانک رک گئیں، میری طرف دیکھا، مسکرانے لگیں اور پھر بولیں ’تمہارے جیسی ایک لڑکی تو ہی تھی وہ، ہنستی کھیلتی، باتونی سی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close