انٹرٹینمنٹ

روایتی زیورات کے ایک اشتہار میں خواجہ سرا ماڈل کو بطور ایک اداکارہ

ایک منٹ 40 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں ٹرانس جینڈر خاتون کے کردار کی زندگی پر ایک نظر ڈالی گئی ہے نوجوانی میں ان کے چہرے پر بال دکھائے گئے اور خود اعتمادی کی کمی دکھائی گئی

22 سالہ میرا سنگھانیا ریحانی نے کیرالا کی ایک جیولری کمپنی بھیما کے اشتہار میں مرکزی کردار ادا کیا ہے اس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ان کے گھر والے انھیں محبت سے قبول کر لیتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہر کامیابی کا جشن زیورات کے تحفے سے منایا جاتا ہے

پیور ایز لو (محبت جیسا خالص) نامی یہ اشتہار یوٹیوب پر نو لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے جبکہ اپریل میں اس کے ریلیز کے بعد سے انسٹاگرام پر 14 لاکھ ویوز آچکے ہیں۔

اسے بڑے پیمانے پر پسند کیا جا رہا ہے۔
میرا دلی یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں اور پارٹ ٹائم ماڈل ہیں جنھوں نے دو سال قبل اپنے خاندان سے ٹرانس جینڈر ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انھیں اس اشتہار میں کام کرنے کے لیے کہا گیا تو پہلے وہ اتنی پُراعتماد نہیں تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نہیں چاہتی تھی کہ میری ٹرانس شناخت کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ میں پریشان تھی کیونکہ فلم میں زندگی کے مختلف لمحات دکھائے جاتے ہیں۔ اور ٹرانس بننے سے پہلے میں ایک آدمی ہوں جس کی داڑھی ہے۔‘
’لیکن جب میں نے سٹوری پڑھی اور ڈائریکٹر کے بارے میں تحقیق کی تو میں نے ہاں کہہ دیا۔ اور میں خوش ہوں کہ میں نے اس اشتہار میں کام کیا۔ یہ کرنے کے بعد میں اپنی شناخت کے ساتھ زیادہ مطمئن ہوں۔‘انڈیا میں ٹرانس جینڈر افراد کی کل آبادی قریب 20 لاکھ ہے۔ اور سنہ 2014 میں سپریم کورٹ نے کسی دوسرے صنف کے برابر حقوق دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

لیکن ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ بد سلوکی اور معاشرے میں ان کی اپنائیت کی کمی اب بھی پائی جاتی ہے۔ کئی افراد کو خاندان والے گھر سے نکال دیتے ہیں یا اکثر شادیوں اور بچوں کی پیدائش پر ناچ گانے سے پیسے کماتے ہیں۔ یا وہ بھیک مانگنے اور سیکس ورکر بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

مگر کیرالہ انڈیا میں ٹرانس جینڈر برادری کے لیے سب سے اچھی ریاستیوں میں سے ہے۔ سنہ 2015 میں یہاں ٹرانس جینڈر پالیسی متعارف کرائی گئی تاکہ اس اقلیتی گروہ کے خلاف تعاصب ختم کیا جاسکے۔ مگر ٹرانس جینڈر افراد سے نفرت کیرالہ میں بھی اتنی ہی بڑی حقیقت ہے جتنی باقی انڈیا میں۔

یہ بھی پڑ ھیں : نورا فتحی کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں

نویا راؤ بھیما میں آن لائن مارکیٹنگ ہیڈ ہیں اور یہ اشتہار ان کا ہی آئیڈیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مہم پر ساتھیوں نے ’خوف اور خدشات‘ ظاہر کیے تھے۔ وہ بتاتے ہیں ’ہمارے گذشتہ اشتہاروں میں خوشحال خواتین دلہنیں نظر آتی تھیں۔ ہمیں فکر تھی کہ لوگ اس پر کیا ردعمل دیں گے۔‘

’ریاست میں ہماری اکثر دکانیں دیہی علاقوں میں ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں وہاں لوگوں میں ان مسائل پر کتنی آگاہی حاصل ہے۔
مگر 96 سال پرانی اس زیورات کی کمپنی نے، جس کی جنوبی انڈیا میں درجنوں دکانیں ہیں اور متحدہ امارات تک یہ برانڈ پھیلا ہوا ہے، نے فیصلہ کیا کہ وہ اس اشتہار پر کام کریں گے تاکہ ’سماجی پیغام‘ کے ذریعے لوگوں کو اس پر بات کرنے کا موقع دیا جائے۔

راؤ کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم تھا مہم پر منفی ردعمل آسکتا ہے۔ گذشتہ سال تشنق نامی زیورات کے برانڈ کے اشتہار پر آنے والے ردعمل سے بھی وہ گھبرا رہے تھے۔ اسے سوشل میڈیا پر منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جب اس میں ہندو مسلم شادی پر قدامت پسند حلقوں نے ناراضی ظاہر کی۔

انڈیا میں فلموں اور پاپ کلچر میں اکثر ٹرانس جینڈر افراد کو مزاحیہ کرداروں میں دیکھا جاتا ہے۔ پلائی کا کہنا ہے کہ ایسی تشہیری مہم ’گیم چینجر‘ ثابت ہو سکتی ہیں۔

پلائی نے کہا کہ جب انھوں نے سوشل میڈیا پر اس اشتہار کی تعریف کی تو انھیں قدامت پسندوں انڈینز اور غم و غصے کا اظہار کرنے والے ٹرولز کا بھی سامنا کرنا پڑا جو متوقع تھا۔

’کچھ اختلاف رائے ضرور تھا لیکن ایسی لوگ بہت کم تھے جن سے مجھے ڈر لگا۔ 95 فیصد سے زیادہ ردعمل مثبت تھا اور یہ اپنے آپ میں دل جیت لینے والی بات ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close