Featuredپنجاب

فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جج کو بہادر نہیں ڈرپوک ہونا چاہیے

لاہور : مجھے کسی اور نے بھی یہی کہا تھا، میں نے کہا جج کو بہادر نہیں ڈرپوک ہونا چاہیے، جج کو اللہ تعالیٰ اور آئین کا ڈر ہونا چاہیے

ان کا کہنا تھا کہ قانون کے شعبے سے میری وابستگی کے 44 سال ہو گئے، ہماری زندگیاں ایک ہی مقصد کے تحت گزرتی ہیں۔
ضلعی عدالتیں فوجداری اور دیوانی مقدمات سنتی ہیں، ملک کے اکثر مقدمات ضلعی عدالتوں میں ہیں، عوام کی شکایت ہے کہ فیصلے برسوں بعد ہوتے ہیں، عوام کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ فیصلے پر اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ مقدمہ بازی کی بڑی وجہ قانون سے ناواقفیت ہے، شہری پاکستان میں قوانین معلوم کرنا چاہے تو اسے ایک جگہ اکھٹا نہیں ملتا، ایک زمانے میں ہر برس کے وفاقی قوانین شائع کیے جاتے تھے، اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے، گزٹ آف پاکستان تو اب بھی شائع ہوتے ہیں مگر ان میں قانون الگ کرنے اور موضوعات میں مرتب کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔

یہی نظام صوبائی سطح پر بھی نافذ تھا مگر اب نظر نہیں آتا، عدالت عظمی نے اس غفلت کی نشاندہی کی تو یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا۔

یہ بھی پڑ ھیں : تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ تحلیل

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا موجودہ قوانین میں جو ترامیم آتی ہیں، اب قوانین میں ان کا اندراج نہیں کیا جا رہا، اکثر اوقات پرانا قانون سامنے رکھنا پڑتا ہے اور پھر ہر سال کی ترامیم کا جائزہ لینا پڑتا ہے، پھر خو د یہ کام کرنا پڑتا ہے کہ قانون کی موجودہ صور ت کیا ہے، پہلے پانچ سالہ، 10 سالہ پاکستان کوڈ کتابی شکل میں شائع ہوتے تھے، اب ایسا نہیں ہوتا۔

پاکستان میں جتنے قانون بنتے ہیں وہ انگریزی میں ہوتے ہیں، سمجھ نہیں آیا کہ وفاقی پارلیمان ہو یا صوبائی اسمبلیاں قانونی اسی وقت اردو میں شائع کیوں نہیں ہو سکتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پاکستان میں اردو میں قانون بنانے کی ضرورت ہے، قانون سازی میں اردو زبان میں بھی تیز کام کی ضرورت ہے اور پاکستان کوڈ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے، جب میں خود وکیل تھا تو زیادہ وقت صحیح قانون ڈھونڈنے میں لگتا تھا، مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے حالات بہتر بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close