کشمیر

کشمیر میں پاکستانی خاتون کی فریاد

30 سالہ ارم سیّار گذشتہ دو ماہ سے پولیس اور سول انتظامیہ کے نصف درجن افسروں اور ان کے متعدد معاونین کے پاس فریاد لے کر گئیں، لیکن انھیں پاکستان کے شہر راولپنڈی میں بستر مرگ پر پڑے اپنے والد سے ملنے کی اجازت نہیں ملی۔

آخری کوشش کے طور پر وہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہتی ہیں، لیکن انھیں ملاقات نصیب نہیں ہو رہی۔ ’اب میں نے رکن اسمبلی اعجاز میر صاحب سے درخواست کی ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ میڈم انتخابات میں مصروف ہیں۔‘

سرینگر سے 60 کلومیٹر جنوب کی جانب شوپیان ضلع میں رہنے والی ارم اپنی آپ بیتی سُناتے ہوئے آنسوؤں پر قابو نہیں پاسکیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ اپنے کشمیری خاوند اور چھ سالہ بیٹی فلک کے ہمراہ کشمیر لوٹیں تو ان کے خاوند سیّار لون کو تین ہفتوں تک پولیس تھانے میں قید کیا گیا۔

’اب جیسے تیسے ہم اپنا الگ چولہا جلاتے ہیں، بیٹی کو پڑھاتے ہیں۔ سیّار کے والدین نے مالی مدد بھی کی۔ لیکن راولپنڈی میں میرے والد دل کی بیماری میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ چند ہفتوں کے مہمان ہیں۔‘

قانونی طور پر ابھی بھی ارم سیّار پاکستانی شہری ہیں۔ دراصل 2010 میں حکومت ہند کی وزارت داخلہ نے ایک سکیم کا اعلان کیاجس کے تحت پاکستان گئے ایسے کشمیری نوجوان بیوی بچوں سمیت کشمیر لوٹ سکتے ہیں، جنھوں نے مسلح تشدد کا راستہ ترک کیا ہو۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس سکیم کے تحت اب تک تقریباً 500 کشمیری نوجوان واپس لوٹے اور ان میں سے بیشترً کے ہمراہ ان کی پاکستانی بیویاں اور بچے تھے۔

ارم کہتی ہیں کہ جب وہ عدالت اور افسروں کے پاس بھارتی شہریت کی درخواست لے کر جاتی ہیں ، تو ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہیں۔ ’میں اس لیے چاہتی ہوں کاغذات مکمل ہوں کیونکہ اگر مجھے بیمار والد کے پاس جانے دیا گیا تو واپسی پر مجھے تنگ نہ کیا جائے۔‘

واضح رہے ’ملی ٹینیٹ ری ہیبلی ٹیشن‘ نامی یہ سکیم اب بھی متنازعہ بنی ہوئی ہے۔ واپس لوٹے اکثر کشمیری نوجوان نیپال کے راستے پہلے اترپردیش پہنچتے ہیں اور وہاں سے کشمیر آتے ہیں۔ یہ سب غیرقانونی طور مگر حکومت کی خاموش حمایت سے ہوتا ہے، لیکن جب معاملہ پولیس کے پاس آتا ہے، برسوں بعد لوٹے کشمیری نوجوان اپنی پاکستانی بیویوں سمیت قانونی پیچیدگیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

حکومت نے نیپال کو ایک تسلیم شدہ راہداری کے طور تسلیم کرنے کی تجویز بھارت کی وزارت داخلہ کو پیش کی ہے، لیکن ابھی تک اس میں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

32 سالہ سیّار نے 2001 میں جب ایل او سی پار کرکے مسلح شورش میں شمولیت کا ارادہ کرلیا تو کشمیر اور پاکستان میں حالات معمول پر تھے۔ سیّار کشمیر سے جولائی کے مہینے میں روانہ ہوئے اور ستمبر کو پاکستانی زیرانتظام کشمیر پہنچے۔

وہ کہتے ہیں ’جب میں پاکستان پہنچا تو ہوا بدل چکی تھی۔ اس دوران گیارہ ستمبر کو ہی امریکہ پر القاعدہ کا حملہ ہوچکا تھا اور پاکستانی انتظامیہ کشمیری لڑکوں کے وہاں قیام کے بارے میں فکر مند تھی۔‘

سیّار کہتے ہیں کہ وہ اُن دو ہزار نوجوانوں میں شامل تھے جنہیں ایبٹ آباد کے ایک ویران کیمپ میں رکھا گیا اور کہا گیا کہ ’کچھ نہیں کرنا ہے، خاموش بیٹھو۔‘

کئی ماہ تک یہ سلسلہ چلنے کے بعد انہیں بتایا کہ ’جو لوگ گھر بسانا چاہتے ہیں وہ جاسکتے ہیں۔‘ سینکڑوں دوسرے کشمیریوں کی طرح سیّار بھی عام سماجی زندگی کی تلاش میں نکلے۔ وہ راولپنڈی پہنچے جہاں ایک دوست کے توسط سے ان کی شادی ارم سے ہوگئی۔

ارم سیّار کہتی ہیں : ’میں بہت خوش تھی کہ حکومت ہمارا ویلکم کرے گی۔ اب جو کچھ ہم پر بیتی سو بیتی۔ لیکن میرے والد بہت بیمار ہیں۔ اور میرا پوچھتے ہیں۔ مجھے انھیں دیکھنا ہے۔ اگر وہ مجھ سے ملے بغیر انتقال کرگئے تو میں ساری زندگی خود کو معاف نہیں کرپاؤں گی۔‘

ارم کو یقین ہے کہ اگر محبوبہ مفتی سے ان کی ملاقات ہوگئی تو ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ’وہ خود بھی خاتون ہیں۔ ان کا بھی والد انتقال کرگیا۔ وہ کئی ماہ تک سنبھل نہیں پائیں۔ وہی میرا درد سمجھیں گی۔ میں کہیں بھاگ نہیں رہی۔ والد سے مل کر واپس یہیں آنا ہے مجھے، میرا خاوند ہے گھر بار ہے، میں کہاں جاؤں گی۔‘

کشمیری نوجوانوں کے ہمراہ پاکستان سے یہاں آنے والی اکثر خواتین ذہنی تناؤ کی شکار ہیں۔ ایک ایسی ہی خاتون نے پولیس کی بار بار پوچھ کچھ، والدین سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے اور دوسرے مسائل سے تنگ آکر خود کشی کی کوشش بھی کی۔ اکثر یہ خواتین سرینگر میں حکومت سے مطالبہ کرنے کے لیے مظاہرے کرتی ہیں۔

ارم کا کہنا ہے کہ: ’ہم لوگوں کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ ہم نے ان نوجوانوں کے ساتھ شادی کی، اور انھیں سماجی زندگی کا حصہ بنایا۔ ہمارا مسئلہ تو فوراً حل ہوجانا چاہیے۔‘

حکمران جماعت پی ڈی پی کے رکن اسمبلی ایڈوکیٹ اعجاز میر نے ارم کا مسئلہ اسمبلی میں بھی اُٹھایا لیکن حکومت نے ان کے سوال کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دی دیا۔

ان کا کہنا ہے: ’یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ وزیراعلی محبوبہ مفتی کی نوٹس میں یہ بات لاؤں۔ ہم نے ان کو یقین دلایا ہے کہ ان کا مسئلہ انسانی بنیادوں پر حل ہوجائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close