خیبر پختونخواہ

خیبر پختونخوا میں اسلحہ خریدنے کی شرح میں اضافہ

خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی جانب سے نرم اہدف کو نشانہ بنانے کے واقعات کے بعد وہاں کے لوگوں میں اپنے تحفظ خود کرنے کا رجحان بڑھا ہے

پشاور میں پستول، ریپیٹر اور شارٹ گن جیسے اسلحے کی مانگ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اسلحے کی بڑی خریدار پرائیوٹ سیکورٹی کمپنیاں ہیں جو سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں کو سیکورٹی گارڈ فراہم کرتی ہیں۔

پشاور میں اسلحہ کے ایک تاجر ارشاد فرہاد کا کہنا ہے کہ حکومت نے سکولوں کو اسلحہ لائسنس جاری کیے

ہیں جن میں سے کچھ لائسنس ممنوع بور کے بھی ہیں جب کہ سکولوں کی انتظامیہ اپنے تحفظ کے لیے مختلف قسم کا اسلحہ خرید رہی ہیں۔

امن و امان کی ابتر صورتِ حال نے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کو بھی اسلحہ رکھنے پر مجبور کیاہے۔ وکیل، ڈاکٹرز اور اساتذہ کی ایک مخصوص تعداد بھی اسلحے کے گاہک بن گئے ہیں۔

عارف جو ایک سکول ٹیچر ہیں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال سے پریشان ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اب ایسے حالات بن گئے ہیں کہ ہمیں اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ پاس رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں نے اسلحہ لائسنس حاصل کر لیا ہے اور اب پستول خریدنے آیا ہوں۔

خیبر پختونخوا کے اعلیٰ افسران بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پچھلے ایک برس میں اسلحہ کے فروخت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

پشاور کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرالطاف حسین شیر کا کہنا ہے کہ جولائی 2015 سے جون 2016 تک7,390 اسلحہ لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے تمام سرکاری اور نجی اداروں کو اپنا تحفظ خود کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ان میں سے بیشتر اداروں نے سکیورٹی گارڈز بھرتی کیے ہیں جو اسلحے کی فروخت میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔

پشاور کے کوہاٹ روڈ اور قریبی علاقوں میں اسلحہ ساز کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں میں اسلحہ بنانے کے لیے چھوٹی بڑی مشینوں سے کام لیا جاتاہے۔ مشینوں سے صرف لوہے کی کٹائی کا کام لیا جاتا ہے جب کہ زیادہ تر کام کاریگر ہاتھ سے کرتے ہیں۔

ان کارخانوں میں تیار کیے گئے اسلحہ کی ترسیل شہر کی دکانوں تک کی جاتی ہے۔ صوبائی حکومت نے انھیں اسلحہ لائسنس جاری کیے ہیں۔

کوہاٹ روڈ پر ایک کارخانے کے مالک فرمان اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں تیس بور پستول تیار ہوتے ہیں۔ اسلحہ بنانے کے لیے ہم لوہا منگواتے ہیں، لوہے کو پہلے مشین سے کاٹا جاتاہے اور پھر کاریگر تقریباً ہفتے میں ایک پستول بناتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے لوگوں کا پولیس پر اعتماد کم ہوا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے وسائل محدود ہیں اور ہر ادارے یا فرد کو تحفظ فراہم کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close